You are reading a tafsir for the group of verses 2:26 to 2:29
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

کسی بندہ کے اوپر اللہ کا سب سے پہلا حق یہ ہے کہ وہ عبدیت کے اس عہد کو نبھائے جو پیدا کرنے والے اور پیدا کیے جانے والے کے درمیان اول روز سے قائم ہوچکا ہے۔ پھر انسانوں کے درمیان وہ اس طرح رہے کہ وہ ان تمام رشتوں اور تعلقات کو پوری طرح استوار کیے ہوئے ہو جن کے استوار کیے جانے کا اللہ نے حکم دیا ہے۔ تیسری چیز یہ کہ جب خدا اپنے ایک بندے کی زبان سے اپنے پیغام کا اعلان کرائے تو اس کے خلاف بے بنیاد باتیں نکال کر خدا کے بندوں کو اس سےدور نه كيا جائے۔ حق کی دعوت دینا دراصل لوگوں کو فطری حالت پر لانے کی کوشش کرنا ہے،اس لیے جو شخص لوگوں کو اس سے روکتا ہے وہ زمین میں فساد ڈالنے کا مجرم بنتا ہے۔

اللہ کا یہ احسان کہ وہ آدمی کو عدم سے وجود میں لے آیا، اتنا بڑا احسان ہے کہ آدمی کو ہمہ تن اس کے آگے بچھ جانا چاہیے۔ پھر اللہ نے انسان کو پیداکرکے یونہی چھوڑ نہیں دیا بلکہ اس کو رہنے کے لیے ایک ایسی زمین دی جو اس کے لیے انتہائی طورپر موافق ڈھنگ سے بنائی گئی تھی۔ پھر بات صرف اتنی ہی نہیں ہے، بلکہ اس سے بہت آگے کی ہے۔ انسان ہر وقت اس نازک امکان کے کنارے کھڑا ہوا ہے کہ اس کی موت آجائے اور اچانک وہ مالک کائنات کے سامنے حساب کتاب کے لیے پیش کردیا جائے۔ ان باتوں کا تقاضا ہے کہ آدمی ہمہ تن اللہ کا ہو جائے، اس کی یاد اور اس کی اطاعت میں زندگی گزارے۔ ساری عمر وہ اس کا بندہ بنا رہے۔

پیغمبرانہ دعوت کے انتہائی واضح اور مدلّل ہونے کے باوجود کیوں بہت سے لوگ اس کو قبول نہیں کر پاتے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ شوشه يا غير متعلق (irrelevant)بات نکالنے کا فتنہ ہے۔ آدمی کے اندر نصیحت پکڑنے کا ذہن نہ ہو تو وہ کسی بات کو سنجیدگی کے ساتھ نہیں لیتاایسے آدمی کے سامنے جب بھی کوئی دلیل آتی ہے تو وہ اس کو سطحی طورپر دیکھ کر ایک شوشہ ياغير متعلق بات نکال لیتا ہے۔ اس طرح وہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ دعوت کوئی معقول دعوت نہیں ہے۔ اگر وہ معقول دعوت ہوتی تو کیسے ممکن تھا کہ اس میں اس قسم کی بے وزن باتیں شامل ہوں۔ مگر جو نصیحت پکڑنے والے ذہن ہیں، جو باتوں پر سنجیدگی سے غور کرتے ہیں، ان کو حق کے پہچاننے میں دیر نہیں لگتی، خواہ حق کو ’’مچھر‘‘ جیسی مثالوں ہی میں کیوںنہ بیان کیا گیا ہو۔