undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

ان قوی دلائل کے ہوتے ہوئے اللہ کا انکار کرنا ، کفر و انکار کی وہ قبیح اور ناپسندیدہ روش ہے جس کی پشت پر کوئی سند و دلیل نہیں ہے ۔ قرآن کریم یہاں ایک ایسی حقیقت پیش کرتا ہے جس سے ان کے لئے کوئی راہ فرار نہیں ہے۔ وہ اس بات پر مجبور ہیں کہ اس حقیقت اور اس کے لازمی نتائج کو تسلیم کرلیں ۔ قرآن ان کے سامنے قافلہ حیات اور اس کے مختلف حالات و کیفیات لاکر رکھ دیتا ہے تاکہ وہ اس پر غور کریں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان مردہ حالت میں تھے ، اللہ نے انہیں زندگی سے نوازا ، اللہ ہی انہیں حالت موت سے حالت حیات کی طرف لایا ، یہ ایک ایسی روشن حقیقت ہے کہ سوائے قدرت الٰہی اور تخلیق الٰہی کے اس کی کوئی اور توجیہ وہ نہیں کرسکتے ۔ وہ زندہ ہیں ان کے قلب جسدی میں حیات موجود ہے ؟ اس حیات کا خالق کون ہے ؟ وہ کون ہے جس نے جمادات میں یہ زائد صفت ، صفت حیات پیدا کی ؟ کیونکہ جمادات جن پر موت وجمود کی حالت طاری ہے ، وہ حیات کی حقیقت ومزاج سے بالکل مختلف ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ اس حیات کا مصدر کیا ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ سوال ایسا ہے کہ عقل ونفس ہر وقت کوئی حقیقی اور تشفی بخش جواب چاہتا ہے اور کسی کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اس سوال کو نظر انداز کرسکے ۔ پھر اس سوال کے جواب میں کوئی ایسی بات انسان کو مطمئن نہیں کرسکتی جس میں اس مادی دنیا سے آگے کسی خالق ذات کو تسلیم نہ کیا گیا ہو۔

غرض یہ زندگی جو اس زمین پر رواں دواں ہے اور جس کی روش جمادات سے بالکل مختلف ہے کہاں سے آئی ؟ اس کا واحد تشفی بخش جواب یہ ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے آئی اور اسی کی قدرت کا کرشمہ ہے ، یہی جواب ایسا ہے جو سمجھ میں آسکتا ہے ۔ اگر کسی کو یہ جواب تسلیم نہیں ہے تو ہم اس سے پوچھتے ہیں کہ لائے وہ کوئی تشفی بخش جواب ؟

یہ ہے وہ حقیقت جسے قرآن کریم اس موقع پر لوگوں کے سامنے رکھتا ہے ۔ كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَكُنْتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ” تم اللہ کے ساتھ کفر کارویہ اختیار کرتے ہو حالانکہ تم بےجان تھے ، اس نے تم کو زندگی عطاکی ۔ “ یعنی تم اس طرح بےجان تھے جس طرح تمہارے اردگرد پھیلی ہوئی یہ کائنات بےجان ہے ۔ اس نے تمہارے اندر جان پیدا کی اور تمہیں زندہ کیا ۔ کوئی اپنے خالق سے انکار کیوں کرسکتا ہے ۔ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ” پھر تمہاری جان سلب کرلے گا۔ “ یہ بھی ایک ایسی حقیقت ہے جس کا کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ کیونکہ زندہ وذی روح مخلوقات کا مرنا روزمرہ کا معمول ومشاہدہ ہے ۔ لہٰذا زندگی کے بعد مرنا ایک ایسی حقیقت ہے جو ازخود ہی ذہنوں پر حاوی ہوتی ہے اور اس میں کسی قسم کی بحث وجدال کی کوئی گنجائش نہیں ہے ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ” پھر وہ تمہیں دوبارہ زندگی عطاکرے گا۔ “ یہ تھی وہ حقیقت جس میں ان کو شک تھا ، لہٰذا وہ اس کے بارے میں بحث وجدال کرتے تھے اور آج بھی اس میں بعض کج فطرت لوگ شک کرتے ہیں ، جو آج پھر صدیوں قبل کی جاہلیت کی طرف لوٹ چکے ہیں ۔ لیکن انسان اگر اس بات پر غور کرے کہ وہ پہلے بھی کچھ نہ تھا۔ اسے پیدا کیا گیا ، لہٰذا یہ بات عقل سے بعید نہیں ہے کہ موت کے بعد دوبارہ اسے زندہ کیا جاسکتا ہے ۔ پس یہ عقیدہ کوئی ایسا عجوبہ نہیں ہے کہ لازماً اس کی تکذیب ہی کی جائے ۔

ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ” پھر اسی کی طرف تمہیں پلٹ کرجانا ہے۔ “ جیسا کہ اس نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا اسی طرح تم اس کی طرف لوٹوگے ، جس طرح اس نے تمہیں زمین میں پھیلایا۔ اسی طرح تم اٹھائے جاؤگے ۔ جس طرح تم مردہ حالت سے نکال کر اس زندہ حالت میں لائے گئے ۔ اسی طرح تم اسی کی طرف پلٹ کر جاؤگے تاکہ وہ تمہارے درمیان اپنا حکم نافذ کرے اور تمہارے قضیوں کا فیصلہ کرے۔

یہ ایک مختصر سی آیت ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے اندر پل بھر میں زندگی کا پورا دفتر پھیلا بھی دیا ۔ اور لپیٹ بھی لیا ۔ ایک چمک اٹھی اور دیکھا گیا کہ پوری انسانیت اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے ۔ اللہ نے پہلے اسے زندہ کرکے زمین میں پھیلایا ، پھر اسے اچانک موت نے آلیا ، پھر روز محشر کا منظر ہے جس میں پوری انسانیت اٹھ رہی ہے اور اللہ کی طرف لوٹ رہی ہے بعینہ اسی طرح جس طرح پہلے اللہ نے اسے زندہ کیا تھا ۔ اس برق رفتارپیرایہ بیان میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ صاف صاف نظر آتی ہے اور انسانی احساس و شعور پر اس کے گہرے اثرات پڑتے ہیں ۔