undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

جس طرح اس سورت کے آغاز میں متقین کی صفات کو تفصیل سے بیان کیا گیا تھا اسی طرح یہاں فاسقین کی خصوصیات کو بھی قدرے تفصیل سے لیا جاتا ہے ۔ کیونکہ اس پوری سورت میں روئے سخن ایسے ہی لوگوں کی طرف رہے گا ۔ نیز انسان ہر زمانے میں انہی ہر طبقات میں منقسم رہتے ہیں اور وہ یہ ہیں ۔

الَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الأرْضِ أُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ (27)

” جو اللہ کے عہد کو مضبوطی سے باندھنے کے بعد توڑ دیتے ہیں ، اللہ نے جسے جوڑنے کا حکم دیا ہے اسے کاٹتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں ، حقیقت میں یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں ۔ “

وہ کون سا عہد ہے جسے یہ توڑتے ہیں ؟ وہ کون ساتعلق ہے کہ اللہ نے اس کے جوڑنے کا حکم دیا ہے اور اسے یہ کاٹتے ہیں ؟ اور جو فساد یہ کرتے ہیں اس کی نوعیت کیا ہے ؟ ان سب امور کو سیاق کلام میں مجمل چھوڑدیا گیا ہے ۔ کیونکہ یہاں اصولی طور پر ایسے لوگوں کا مزاج بتایا جارہا ہے ۔ ان کی نوعیت کو متعین ومشخص کیا جارہا ہے ۔ کسی حادثے یا کسی مخصوص واقعہ کا بیان مقصود نہیں ہے بلکہ ایک عمومی صورتحال کی وضاحت مطلوب ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ اور ایسے لوگوں کے درمیان جو عہد بھی ہے وہ توڑدیا گیا ہے اور اللہ نے جن جن انسانی رابطوں کے قیام کا حکم دیا ہے ، وہ سب کے سب ان لوگوں نے توڑدیئے ہیں اور جو فساد بھی ممکن ہے اس کا ارتکاب یہ کرتے رہتے ہیں ۔ ان کی فطرت میں بگاڑ پیدا ہوگیا ہے ۔ لہٰذا یہ کسی عہد اور کسی رابطے کے پابند نہیں ہیں ۔ اور کسی فساد سے بھی باز نہیں رہتے ۔ ان کی مثال کچے پھل کی سی ہے ، جو شجر حیات سے جدا ہوگیا ہو ، گل اور سڑ گیا ہو اور زندگی نے اسے پرے پھینک دیا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جن تمثیلوں سے مومنین ہدایت پاتے ہیں ، ان سے ایسے لوگ گمراہ ہوجاتے ہیں ، جو چیزیں متقین کے لئے سبب ہدایت ہوتی ہیں وہ ان فاسقین کے لئے باعث ضلالت ہورہی ہیں ۔

ایسے لوگ جو کبھی یہود ومشرکین کے منافقین کی صورت میں مدینہ میں پائے جاتے تھے اور جو دعوت اسلامی کے مقابلے میں ایک بڑی رکاوٹ تھے اور جو آج بھی نام اور عنوان کی مختصر تبدیلی اور بالکل معمولی اختلاف کے ساتھ تحریک کی راہ میں سنگ گراں بنے ہوئے ہیں ، ان کی فتنہ انگیزیوں کے نشانات تودیکھئے ۔ الَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مِيثَاقِهِ ” جو اللہ کے عہد کو مضبوط باندھ لینے کے بعد توڑ دیتے ہیں۔ “ انسانوں اور اللہ تعالیٰ کے درمیان جو پیمان بندھا ہوا ہے اس کی کئی شکلیں اور صورتیں ہیں ۔ ایک تو وہ جبلی عہد ہے جو ہر ذی حیات کی جبلت میں ودیعت کیا گیا ہے ۔ اس کی رو سے ہر ذی حیات کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے خالق کی معرفت حاصل کرے اور اس کی بندگی کرے ۔ انسانی فطرت میں ہمیشہ عقیدہ خداوندی کے لئے پیاس رہتی ہے ۔ لیکن کبھی اس کی فطرت سلیمہ میں فساد رونما ہوجاتا ہے اور اس کے نتیجے میں انسان راہ راست سے بھٹک جاتا ہے ، اور دوسروں کو اللہ کا ہمسر اور شریک بنانے لگتا ہے۔ نیز اس کی ایک صورت عہد خلافت کی ہے ، جو اللہ تعالیٰ اور آدم (علیہ السلام) کے درمیان طے پایا۔ جس کا تذکرہ عنقریب ہوگا۔

فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ مِنِّي هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ (38) وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (39)

” پھر میری طرف سے جو ہدایت تمہارے پاس پہنچے تو جو لوگ میری ہدایت کی پیروی کریں گے ان کے لئے کسی خوف اور رنج کا موقعہ نہ ہوگا اور جو لوگ اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے ، وہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں ، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ “

نیز اس عہد کی ایک شکل وہ ہے جو مختلف پیغمبروں کے ذریعے مختلف اقوام سے باندھی گئی کہ وہ صرف ایک اللہ جل شانہ کی بندگی کریں اور اپنی زندگی میں صرف اسی کی تجویز کردہ نظام حیات اور نظام قانون کو اپنائیں گے ۔ یہ سب عہد ایسے ہیں جنہیں فاسق لوگ توڑتے ہیں ۔ اور جب کوئی اللہ تعالیٰ سے پختہ پیمان باندھنے کے بعد توڑتا ہے تو پھر وہ کسی دوسرے عہد کی کوئی پرواہ نہیں کرتا ۔ جس کے اندر اللہ تعالیٰ کے ساتھ عہد شکنی کا حوصلہ ہوتا ہے ، وہ اس کے بعد کسی عہدوپیمان کا کوئی احترام نہیں کرتا۔

وَ یَقطَعُونَ مَآ اَمَرَ اللہ ُ بِہٖٓ اَن یُّوصَلَ ” اللہ نے جسے جوڑنے کا حکم دیا ہے اسے کاٹتے ہیں ۔ “ اللہ تعالیٰ نے کسی قسم کے روابط وتعلقات کو قائم رکھنے کا حکم دیا ہے ۔ اس نے یہ حکم دیا ہے کہ عزیزوں اور رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کی جائے ، اس نے یہ حکم دیا ہے کہ پوری انسانیت کی عظیم برادری قائم کی جائے اور ہر انسان دوسرے کا بھائی ہو۔ اور ان سب سے مقدم درجے میں اس نے حکم دیا ہے کہ ایک نظریاتی اخوت اور ایمانی برادری قائم کی جائے کیونکہ کوئی ربط اور تعلق ایمان ونظریہ کے سوا مضبوط نہیں ہوسکتا۔ جب وہ تعلقات و روابط ٹوٹ جائیں جن کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے تو پھر تمام رشتے ٹوٹ جاتے ہیں اور تمام روابط ختم ہوجاتے ہیں ۔ زمین پر افراتفری عام ہوجاتی ہے اور شر و فساد پھیل جاتا ہے۔

وَيُفْسِدُونَ فِي الأرْضِ ” اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں۔ “ زمین پر فساد پھیلانے کی بھی کئی شکلیں ہیں ۔ سب کی سب اللہ تعالیٰ کے عہد کو توڑنے اللہ تعالیٰ نے جن تعلقات کو جوڑنے کا حکم دیا ہے ، ان کے کاٹنے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا نتیجہ ہوتی ہیں اور ان تمام فسادات کا سرچشمہ یہ ہے کہ انسان اس نظام حیات کو ترک کردے جو اللہ تعالیٰ نے انسانی زندگی اور اس کے تصرفات کے لئے تجویز کیا ہے ۔ اسلامی نظام حیات ہی وہ راہ ہے جو ان تمام راہوں سے علیحدہ ہوجاتی ہے اور جو شر و فساد پر منتہی ہوتی ہیں ۔ اگر صورت یہ ہو کہ اسلامی نظام زندگی کے تصرف واقتدار سے اس دنیا کے امور آزاد کردیئے گئے ہوں ، اس زندگی کو اللہ کی شریعت کے دائرے سے نکال دیا گیا ہو تو ممکن نہیں ہے کہ اس دنیا کی اصلاح ہوسکے ۔ جب بھی ایسا ہوا ہے کہ انسانوں اور ان کے رب کے درمیان یہ مضبوط تعلق نہیں رہا ۔ تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دنیا شر و فساد کے عظیم سیلاب کی لپیٹ میں آگئی ہے ، انسانی اخلاق خراب ہوگئے ہیں ، لوگوں کی زندگی اور احوال تباہ ہوگئے ۔ ان کی معیشت برباد ہوگئی ۔ غرض ایسے حالات میں یہ زمین اور اس کے اوپر رہنے والی تمام جاندار مخلوق اور تمام چیزوں میں فساد رونما ہوجاتا ہے اور یہی وہ تباہ کاری اور شر و فساد ہے جو اللہ کی نافرمانی کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے۔ اس لئے ایسے فساد میں مبتلالوگ اسی کے مستحق ہوتے ہیں کہ جن امور سے مومنین کو راہ ہدایت نصیب ہوتی ہے وہ ان کے لئے باعث گمراہی ہوتے ہیں۔