undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

مذکورہ بالا تین قسم کے لوگوں کی تصویر کشی کے بعد سیاق کلام اب پوری انسانیت کو دعوت دینے کی طرف مڑجاتا ہے ۔ پوری انسانیت سے کہا جاتا ہے کہ وہ ان تین تصاویر میں سے سیدھی اور شریفانہ ، پاک وخالص ، سرگرم عمل اور نفع بخش اور ہدایت یافتہ اور کامیاب تصویر یعنی متقین کی تصویر کو اختیار کرے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے :

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (21) الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الأرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَأَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَكُمْ فَلا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَادًا وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ (22)

” اے لوگو ! بندگی اختیارکرو اپنے اس رب کی جو تمہارا اور تم سے پہلے جو لوگ ہو گزرے ہیں ، ان سب کا خالق ہے ، تمہارے بچنے کی توقع اسی صورت میں ہوسکتی ہے ۔ وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے زمین کا فرش بچھایا ، آسمان کی چھت بنائی ۔ اوپر سے پانی برسایا اور اس کے ذریعے سے ہر طرح کی پیداوار نکال کر تمہارے لئے رزق بہم پہنچایا ۔ پس جب تم یہ جانتے ہو تو دوسروں کو اللہ کا مدمقابل نہ ٹھہراؤ۔ “

اب گویا یہ تمام لوگوں کو دعوت ہے کہ وہ اس رب واحد کی بندگی میں داخل ہوجائیں جس نے انہیں پیدا کیا ہے ۔ اور اسی نے ان کے آباء واجداد کو بھی پیدا کیا ہے ۔ وہ ایسا رب ہے جو اکیلا اس کائنات کا خالق ہے لہٰذا صرف وہی اس بات کا مستحق ہے کہ اس کی بندگی کی جائے ۔ اور اس کی بندگی کا ایک خاص مقصد ہے اور توقع ہے کہ اللہ کی بندگی کرکے تمام لوگ اس مقصد تک جاپہنچیں اور اسے حاصل کرلیں ۔ اور وہ مقصد یہ ہے لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ” تاکہ تم پرہیز گار بن جاؤ۔ “ تم انسانی زندگی کا وہ نقشہ اختیار کرلو جو پسندیدہ ہے اور جو اللہ کو پسند ہے ۔ یعنی اللہ کی بندگی کرنے والوں اور اس سے ڈرنے والوں کا نقش حیات ، جنہوں نے اللہ کی خالقیت اور ربوبیت کا حق صحیح طرح ادا کردیا ، صرف ایک خالق کی بندگی کی ، جو تم حاضر اور گذشتہ لوگوں کا خالق ہے ، اور جس نے آسمان و زمین کے وسائل کے ذریعہ ان کے رزق کا بندوبست کیا اور اس کام میں اس کا نہ کوئی مساوی ہے اور نہ شریک ۔ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الأرْضَ فِرَاشًا ” جس نے تمہارے لئے زمین کا فرش بچھایا۔ “

اس تعبیر سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر انسانی حیات کو بےحد سہل بنایا ہے ۔ زمین کو اس طرح بنایا کہ وہ انسانوں کے لئے خوشگوار رہائش گاہوں اور فرش کی طرح محفوظ جائے قیام ہو۔ لیکن انسان چونکہ ایک طویل عرصہ تک یہاں رہتے ہیں ۔ اس لئے ان کے شعور سے زمین و آسمان کی یہ خوشگواری محو ہوجاتی ہے ۔ وہ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے وسائل حیات فراہم کرنے کے واسطے اس زمین کے موسم کو ان کے لئے کیسا موافق اور خوشگوار بنایا ہے ، اور ان کے لئے اس جہاں میں آرام اور آسائش کے کیا کیا ذرائع بہم پہنچائے ہیں ۔ اگر یہ وسائل نہ ہوتے تو اس کرہ ارض پر ان کی زندگی اس قدر خوشگوار ، سہل اور پرسکون نہ ہوتی ۔ اس کائنات کے عناصرترکیبی میں سے اگر کوئی ایک عنصر بھی غائب ہوجائے تویہاں کا ماحول اس قدر تبدیل ہوجائے کہ اس میں اس پوری انسانیت کی نشوونما محال ہوجائے۔ صرف ہوا ہی کی مثال لیجئے کہ جن مقررہ عناصر پر یہ مشتمل ہے ، اگر ان میں ذرہ بھر کمی ہوجائے تو لوگوں کے لئے زمین پرسانس لینا دشوار ہوجائے ۔ اگرچہ انہوں نے ابھی زندہ رہنا ہے۔

وَالسَّمَاءَ بِنَاءً ” اور آسمان کو چھت بنایا “ یعنی آسمان ایک چھت کی طرح موزوں اور پختہ ہے ۔ اسی زمین میں انسان کی زندگی اور اس زندگی کی آسائشوں کے ساتھ آسمان کو گہرا ربط ہے۔ آسمان کی حرارت اجرام فلکی کی جاذبیت اور توازن وغیرہ غرض زمین و آسمان کے تمام طبعی روابط ممد حیات ہیں اور اس زمین میں قیام حیات کے لئے تمہید اور خشت اول ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں جب بھی اس جہان کے خالق کی قدرت کا بیان ہوتا ہے ، انسان کے رازق کی کبریائی بیان ہوتی ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ تمام مخلوق اور تمام انسانوں کا یہ فرض ہے کہ وہ صرف اسی کی عبادت کریں ۔ چناچہ تمام ایسے مواقع پر اللہ کے احسانات کا ذکر ہوتا ہے ۔

وَأَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَكُمْ ” اوپر سے پانی برسایا اور اس کے ذریعے سے ہر طرح کی پیداوار نکال کر تمہارے لئے رزق بہم پہنچایا۔ “ اللہ جل شانہ کی قدرت اور اس کے انعامات کے تذکرے کے ضمن میں ، آسمان سے پانی برسانے اور اس کے ذریعے مختلف قسم کی پیداوار نکالنے کا ذکر قرآن مجید کے متعدد مقامات میں کیا گیا ہے ۔ چناچہ آسمان سے اترنے والا پانی ، طبعی نقطہ نظر سے بھی اس زمین پر قیام حیات کا بنیادی عنصر ہے ۔ زمین پر زندگی اپنی مختلف شکلوں اور درجوں میں ، اسی پانی کی رہین منت ہے ۔ قرآن مجید میں وَجَعَلنَا مِنَ المَآءِ کُلَّ شَیئٍ حَیٍّ ” اور ہم نے ہر چیز کو پانی سے زندہ بنایا۔ “ کبھی تو پانی بارش کی صورت میں کھیتوں کو سیراب کرتا ہے ، کبھی وہ میٹھی ندیوں اور نہروں کی صورت میں بہتا ہے ۔ اور کبھی وہ زمین کی رگوں میں سرایت کرجاتا ہے اور چشموں اور کنووں کی صورت میں نمودار ہوتا ہے اور آلات کے ذریعے زراعت اور کھیتی باڑی کے کام میں استعمال ہوتا ہے ۔

زمین میں پانی کی اہمیت ، یہاں بقائے حیات میں اس کا کردار اور مختلف چیزوں کی زندگی کا اس پر موقوف ہونا ، ایک ایسی بدیہی اور مسلم بات ہے جس کی طرف اشارہ اور یاد دہانی ہی کافی ہے ۔ مقصد یہ ہے کہ اللہ جو ہمارا خالق اور رازق ہے اور جس نے یہ تمام نعمتیں ہمیں بخشیں ہیں وہ اس بات کا مستحق ہے کہ ہم صرف اسی کی بندگی کریں ۔

اس طریقہ دعوت سے ، اسلامی تصور حیات کے دو اہم اصول خود بخود واضح ہوجاتے ہیں ، ایک یہ کہ اس پوری کائنات کا خالق ایک ہے ۔ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ ” جس نے تمہیں اور تم سے پہلے جو لوگ ہو گزرے ہیں ، ان سب کو پیدا کیا۔ “ یعنی یہ کائنات ایک ہے ، اس کی اکائیوں اور اجزا کے درمیان مکمل ہم آہنگی ہے اور وہ انسان اور زندگی کے لے معین و مددگار ہے ۔