You are reading a tafsir for the group of verses 2:1 to 2:5
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

تفسیر آیت 1 تا 5

مومنین کی یہ صفات بیان کرنے کے بعد سیاق کلام میں متصلاً کفار کی صفات کا بیان آجاتا ہے ۔ اگرچہ علی العموم ان صفات کا تعلق بھی تمام کفار سے ہے لیکن ان کا سب سے پہلامصداق وہ کفار بنے جو اس وقت دعوت اسلامی کی راہ روکے کھڑے تھے ۔ خواہ وہ مکی کفار ہوں یا ان کا تعلق مدینہ اور اس کے ماحول سے ہو۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :•إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ ءَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ (6) خَتَمَ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَعَلَى سَمْعِهِمْ وَعَلَى أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (7)

” جن لوگوں نے ان باتوں کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ، ان کے لئے یکساں ہے ، خواہ تم انہیں خبردارکرو یا نہ کرو ، بہرحال وہ ماننے والے نہیں ہیں ۔ اللہ نے ان کے دلوں اور ان کے کانوں پر مہر لگادی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑگیا ہے ۔ وہ سخت سزا کے مستحق ہیں۔

ان دوگروہوں کے علاوہ منافقین کا ایک تیسرا گروہ بھی موجود تھا جیسا کہ ہم نے بالتفصیل بتایا ، جن حالات میں نبیeمدینہ طیبہ کی طرف ہجرت فرمائی تھی ، ان کا قدرتی نتیجہ یہ تھا کہ ہجرت کی تکمیل کے فوراً بعد ہی وہ گروہ پیدا ہوگیا ۔ مکہ میں اس گروہ کا وجود نہ تھا۔ کیونکہ وہاں اسلام کی پشت پر کوئی قوت اور حکومت نہ تھی اور نہ کوئی ایسی قومی جماعت تھی جس سے ڈر کر قریش اسلام کے بارے میں کوئی منافقانہ رویہ اختیار کرتے بلکہ اس کے برعکس مکہ میں اسلام کمزور تھا۔ دعوت ہر قسم کے خطرات میں گھری ہوئی تھی ۔ صرف مخلصین ہی تھے جو اس دور میں دعوت اسلامی کی صفوں میں شامل ہونے کی جراءت کرسکتے تھے ، جو اس کی راہ میں ہر قسم کے مصائب جھیلنے کے لئے تیار تھے اور اس کے لئے سب کچھ لٹانے پر تلے ہوتے تھے لیکن یثرب ....(جو پہلے ہی دن سے مدینہ الرسول کے نام سے مشہور ہوگیا) میں حالات کا رخ یکلخت بدل گیا تھا۔ اسلام ایک ایسی قوت بن گیا تھا جسے ہر شخص محسوس کرنے لگا تھا اور ہر کوئی مجبور تھا کہ وہ اس قوت سے تھوڑا بہت بنائے رکھے ۔ بالخصوص جنگ بدر کی عظیم کامیابی کے بعد تو بڑوں بڑوں کی گردنیں جھک گئی تھیں ۔ جو لوگ روش نفاق پر مجبور تھے ان میں بعض کبرائے یثرب بھی تھے ۔ ان کے خاندان اور قبیلے کے لوگ اسلام میں داخل ہوگئے تھے ۔ اس لئے یہ کبراء بھی اپنی سابقہ پوزیشن کو بحال رکھنے کے لئے اور اپنے مخصوص مصالح کی خاطر بظاہر دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے تھے ۔ ایسے لوگوں میں عبداللہ بن ابی ابن سلول کا نام سرفہرست تھا۔ کیونکہ مسلمانوں کی ہجرت سے کچھ قبل ہی اس کی قوم نے یہ پروگرام بنایا تھا کہ اسے بادشاہ بنادیں ۔ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اس کی قوم اس کے لئے ہار اور تاج تیار کررہی تھی ۔

سورة بقرہ کی ابتداء میں بالتفصیل ان منافقین کے اوصاف بیان کئے گئے ہیں ۔ بعض فقروں سے یہ معلوم ہوتا ہے اکثر وبیشتر فقروں کا مصداق یہی بڑے لوگ ہیں جنہوں نے حالات سے مجبور ہوکر اپنے آپ کو دائرہ اسلام میں داخل کردیا تھا۔ لیکن وہ اب بھی عوام الناس پر اپنی لیڈر شپ قائم رکھنے کے خواب دیکھ رہے تھے ۔ اور عام طور پر ایسے متکبرین اکابرین جس طرح ، عوام کے بارے میں رائے رکھتے ہیں اسی طرح یہ لوگ اسلام قبول کرنے والوں کو ” بیوقوف “ لوگ کہہ کر پکارتے تھے چناچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

” بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لائے ہیں ، حالانکہ درحقیقت وہ مومن نہیں ہیں ۔ وہ اللہ اور ایمان لانے والوں کے ساتھ دھوکہ بازی کررہے ہیں ۔ مگر دراصل وہ اپنے آپ کو دھوکے میں ڈال رہے ہیں اور انہیں اس کا شعور نہیں ہے۔ ان کے دلوں میں ایک بیماری ہے جسے اللہ نے اور زیادہ بڑھادیا اور جو جھوٹ وہ بولتے ہیں اس کی پاداش میں ان کے لئے دردناک سزا ہے ۔ جب کبھی ان سے کہا گیا کہ زمین میں فساد برپانہ کرو ” تو انہوں نے یہی کہا کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں ۔ خبردار ! حقیقت میں یہی لوگ مفسد ہیں مگر انہیں شعور نہیں ہے اور جب ان سے کہا گیا کہ جس طرح دوسرے لوگ ایمان لائے ہیں ، اسی طرح تم بھی ایمان لے آؤ تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم بیوقوں کی طرح ایمان لائیں ؟ ، اور جب علیحدگی میں اپنے شیطانوں سے ملتے ہیں ، تو کہتے ہیں کہ اصل میں تو ہم تمہارے ساتھ ہیں اور ان لوگوں سے محض مذاق کررہے ہیں .... اللہ ان سے مذاق کررہا ہے ، وہ ان کی رسی دراز کئے جاتا ہے ، اور یہ اپنی سرکشی میں اندھوں کی طرح بھٹکے چکے جاتے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خرید لی ہے ، مگر یہ سودا ان کے نفع بخش نہیں ہے اور یہ ہرگز صحیح راستے پر نہیں ہیں۔ ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے آگ روشن کی اور جب سارا ماحول چمک اٹھا تو اللہ نے ان کا نور بصارت سلب کرلیا اور انہیں اس حال پرچھوڑدیا کہ تاریکیوں میں انہیں کچھ نظر نہیں آتا ۔ یہ بہرے ہیں ، گونگے ہیں ، اندھے ہیں ۔ یہ اب نہ پلٹیں گے یاپھران کی مثال یوں سمجھو کہ آسمان سے زور کی بارش ہورہی ہے۔ اور اس کے ساتھ اندھیری گھٹا اور کڑک چمک بھی ہے ۔ یہ بجلی کے کڑاکے سن کر اپنی جانوں کے خوف سے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے ہیں اور اللہ ان منکرین حق کو ہر طرف سے گھیرے میں لئے ہوئے ہے ۔ چمک سے ان کی یہ حالت ہورہی ہے کہ گویا عنقریب بجلی ان کی بصارت اچک لے جائے گی ۔ جب ذرا کچھ روشنی انہیں محسوس ہوتی ہے تو اس میں کچھ دور چل لیتے ہیں اور جب ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے تو کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ اللہ چاہتا تو ان کی سماعت اور بصارت بالکل ہی سلب کرلیتا یقینا وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

مریض دل منافقین پر اس بھرپور وار کے دوران ، ان کے شیاطین کی طرف اشارے ملتے ہیں ۔ اس سورت کے سیاق وسباق اور نبی ﷺ کی سیرت طیبہ کے واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد یہود ہیں ۔ کیونکہ اس سورت میں ان کے کردارپر بھرپور تنقید کی گئی ہے ۔ دعوت اسلامی کے بارے میں یہودیوں نے جو طرزعمل اختیار کیا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ مدینہ طیبہ میں یہود وہ پہلا طبقہ تھا جس نے تحریک اسلامی سے ٹکر لی اور اس ٹکراؤ اور تصادم کے متعدداسباب تھے ۔ وہ اوس خزرج جیسی امی اقوام کے مقابلے میں ، اہل کتاب ہونے کی وجہ سے ایک ممتاز مقام رکھتے تھے ۔ مشرکین عرب میں اگرچہ یہود کی طرف میلان کم پایا جاتا تھا لیکن وہ آسمانی کتاب وہدایت رکھنے کی وجہ سے یہودیوں کے لئے مفید طلب تھیں ۔ فتنہ و فساد اور تشتت وافتراق وہ میدان ہے جس میں یہودی زیادہ چابکدستی سے کام کرتے ہیں ، لیکن جب اسلام آیاتو یہودیوں کے ان تمام مفادات پر زد پڑی ۔ وہ ایک ایسی کتاب لے کر آیاجو سابقہ کتب کی تصدیق کرتی تھی اور ان کی تعلیمات کی محافظ تھی ۔ پھر اسلام نے اوس اور خزرج کے اختلافات کو بھی ختم کردیا ، جن کے ذریعے یہودی اپنے مکروفریب کا جال بچھاتے تھے اور مالی مفادات حاصل کرتے تھے ۔ اوس اور خزرج کے باہم دست گریبان لوگ اسلامی صفوں میں آکر ایک دوسرے سے گلے مل گئے اور اوس اور خزرج کے بجائے وہ دونوں مہاجرین کی نصرت کی وجہ سے انصار کہلانے لگے ۔ اور ان سب عناصر کو ملاکر اسلام نے وہ بےنظیر اور نیا اسلامی معاشرہ تیار کیا جس کے تمام افراد متحد اور متفق تھے ، یوں کہ گویا وہ تمام ایک ہی جسم کے مختلف اعضاء ہیں اور جس کی مثال نہ اس سے پہلے کبھی تاریخ میں پائی گئی اور نہ اس کے بعد آج تک وجود میں آسکی ۔

یہودی اپنے آپ کو اللہ کی مختار اور برگزیدہ قوم سمجھتے تھے ۔ ان میں بیشمار رسول اور نبی مبعوث ہوئے تھے اور وہ متعدد کتابوں کے حامل تھے ۔ وہ ہمیشہ اس کی توقع رکھتے تھے اور شدت سے منتظر بھی تھے کہ نبی آخرالزماں خود ان کے ہاں مبعوث ہوگا لیکن جب وہ عربوں میں مبعوث ہوا تو پھر انہوں نے یہ توقعات باندھ لیں کہ شاید نیا نبی ان کو اپنے دائر دعوت سے باہر رکھے گا اور اپنی دعوت کو ان پڑھ عربوں تک ہی محدودرکھے گا ۔ لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ وہ سب سے پہلے اہل کتاب کو اللہ کی اس آخری کتاب کی دعوت دے رہا ہے اور اس بات پر وہ دلیل یہ پیش کرتا ہے کہ وہ عربوں کی نسبت زیادہ ذی علم ہیں اور ان کا یہ فرض ہے کہ وہ مشرکین سے بھی پہلے اس دعوت حق پر لبیک کہیں تو ان کے غرورنفس نے انہیں نافرمانی پر آمادہ کرلیا اور انہوں نے اسے اپنے لئے اہانت سمجھا اور اپنے مذہب کے خلاف اس نئی دعوت کو دست درازی تصور کرنے لگے ۔

اب یہودی نبی ﷺ کے خلاف شدید حسد وبغض میں مبتلا ہوگئے ۔ ایک تو اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی آخرالزماں کے منصب کے لئے آپ کو منتخب فرمایا اور آپ کو کتاب دی جس کی صداقت میں یہودیوں کو ذرہ بھر بھی شبہ نہ تھا۔ دوسرے اس لئے کہ ظہور نبوت کے ساتھ ساتھ آپ کو اس نئے ماحول میں برق رفتار کامیابی حاصل ہوگئی ، ان اسباب کے علاوہ اس حسد وبغض ، تحریک اسلامی سے عداوت اور اس کے خلاف ہر قسم کے اوچھے ہتھیار استعمال کرنے کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ یہودی اس بات کا پختہ شعور رکھتے تھے کہ نئے حالات میں یا تو انہیں اس نئے معاشرے سے پوری طرح کٹ جانا ہوگا اور اس صورت میں ان کی فکری قیادت ، تجارت اور سودی کاروبار کے تمام مفادات ختم ہوجائیں گے اور یا پھر انہیں پوری طرح اس نئے معاشرے میں ضم ہوکر گم ہوجانا ہوگا اور یہ دونوں گولیاں ایسی ہیں کہ جو کسی قیمت پر بھی ، ایک یہودی کے حلق سے نیچے نہیں اترسکتیں ۔

یہ تھے وہ وجوہات جن کی بناپر یہود ان مدینہ نے تحریک اسلامی کے مقابلے میں وہ سخت رویہ اختیار کیا ، جس کی تفصیل سورة بقرہ اور دوسری سورتوں میں بیان کی گئی ہے ۔ ہم یہاں ایسی چند آیات نقل کررہے ہیں جن میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

” اے بنی اسرائیل ! ذرا خیال کرو اس نعمت کا جو میں نے تم کو عطا کی تھی ، میرے ساتھ تمہارا جو عہد تھا ، اسے پورا کرو ، تو میرا جو عہد تمہارے ساتھ ہے اسے میں پورا کروں گا ، اور مجھ ہی سے ڈرو ، اور میں نے جو کتاب بھیجی ہے ، اس پر ایمان لاؤ ۔ یہ اس کتاب کی تائید میں ہے جو تمہارے پاس پہلے سے موجود تھی، لہٰذاسب سے پہلے تم ہی اس کے منکر نہ بن جاؤ۔ تھوڑی قیمت پر میری آیات کو نہ بیچ ڈالو۔ اور مرے غضب سے بچو ! باطل کا رنگ چڑھا کر حق کو مشتبہ نہ بناؤ اور نہ جانتے بوجھتے حق کو چھپانے کی کوشش کرو ، نماز قائم کرو زکوٰة دو ، اور جو لوگ میرے آگے جھک رہے ہیں ان کے ساتھ تم بھی جھک جاؤ، تم دوسروں کو تو نیکی کا راستہ اختیار کرنے کے لئے کہتے ہو مگر اپنے آپ کو بھول جاتے ہو ، حالانکہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو ؟ کیا تم عقل سے بالکل ہی کام نہیں لیتے ؟ “

ایک دوسری جگہ تفصیل سے وہ رویہ اور طرز عمل بیان کیا گیا ہے جو بنی اسرائیل نے اپنے رسول حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ اختیار کیا تھا کہ کس طرح انہوں نے اللہ تعالیٰ کے انعامات کا کفران کیا ۔ کس طرح انہوں نے کتاب اللہ اور شریعت کے بارے میں بےعملی کا مظاہرہ کیا اور باربار اللہ تعالیٰ کے ساتھ کئے ہوئے وعدوں کو توڑا۔ یہ کچھ بالتفصیل بیان کرکے قرآن مجید مسلمانوں کو متنبہ کرتا ہے ۔

اے مسلمانو ! اب کیا ان لوگوں سے تم یہ توقع رکھتے ہو کہ یہ تمہاری دعوت پر ایمان لے آئیں گے ؟ حالانکہ ان میں سے ایک گروہ کا شیوہ یہ رہا ہے کہ اللہ کا کلام سنا اور پھر خوب سمجھ بوجھ کر دانستہ اس میں تحریف کی ۔ محمد رسول اللہ کو ماننے والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم بھی انہیں مانتے ہیں اور جب آپس ایک دوسرے سے تخلئے کی بات چیت ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ بیوقوف ہوگئے ہو ؟ ان لوگوں کو وہ باتیں بتاتے ہو ، جو اللہ نے تم پر کھولی ہیں تاکہ تمہارے رب کے پاس تمہارے مقابلے میں انہیں حجت میں پیش کریں ۔ “ (البقرہ :72:2)

” وہ کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ہرگز چھونے والی نہیں ہے ۔ الا یہ کہ چند روز کی سزا مل جائے ، تو مل جائے ان سے پوچھو ، کیا تم نے اللہ کے سے کوئی عہد لے لیا ہے ، جس کی خلاف ورزی وہ نہیں کرسکتا ؟ یا یہ بات ہے کہ تم اللہ کے ذمے ڈال کر ایسی بات کہہ دیتے ہو ، جن کے متعلق تمہیں علم نہیں ہے کہ اس نے ان کا ذمہ لیا ہے۔ “ (البقرہ :80:2)

” اور اب جو ایک کتاب اللہ کی طرف سے ان کے پاس آئی ہے ۔ اس کے ساتھ ان کا کیا برتاؤ ہے ؟ باوجودیکہ وہ اس کتاب کی تصدیق کرتی ہے جو ان کے پاس پہلے سے موجود تھی ، باوجودیکہ اس کی آمد سے قبل وہ خود کفار کے مقابلے میں فتح ونصرت کی دعائیں مانگا کرتے تھے ، مگر جب وہ چیز آگئی ، جسے وہ پہچان بھی گئے ، تو انہوں نے اسے ماننے سے انکار کردیا ۔ اللہ کی لعنت ان منکرین پر۔ “ (89:2)

” جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو کچھ اللہ نے نازل کیا ہے ، اس پر ایمان لاؤ تو کہتے ہیں ” ہم تو صرف اس چیز پر ایمان لاتے ہیں جو ہمارے ہاں یعنی نسل بنی اسرائیل میں اتری ہے۔ اس دائرے کے باہر جو کچھ آیا ہے اسے ماننے سے وہ انکار کرتے ہیں ، حالانکہ وہ حق ہے اور اس تعلیم کی تصدیق وتائید کررہا ہے ، جو ان کے پاس پہلے سے موجود ہے۔ “ (91:2)

” اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے کوئی رسول اس کتاب کی تائید وتصدیق کرتا ہوا آیا ، جو ان کے ہاں پہلے سے موجود تھی ، تو ان اہل کتاب میں سے ایک گروہ نے کتاب اللہ کو ، اس طرح پس پشت ڈالا ، گویا کہ وہ کچھ جانتے ہی نہیں ۔ “ (101:2)

” یہ لوگ جنہوں نے دعوت حق کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے خواہ اہل کتاب میں سے ہوں یا مشرک ہوں ، ہرگز یہ پسند نہیں کرتے کہ تمہارے رب کی طرف سے تم پر کوئی بھلائی نازل ہو۔ “ (15:2)

” اہل کتاب میں سے اکثر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح تمہیں ایمان سے پھیر کر کفر کی طرف پلٹالے جائیں ۔ اگرچہ حق ان پر ظاہر ہوچکا مگر اپنے نفس کی حسد کی بناپر تمہارے لئے ان کی یہ خواہش ہے ۔ “ (109:2)

” ان کا کہنا ہے کوئی شخص جنت میں نہ جائے گا جب تک وہ یہودی نہ ہو یا (عیسائیوں کے خیال کے مطابق) عیسائی نہ ہو۔ یہ ان کی تمنائیں ہیں ۔ “ (111:2)

” یہودی اور عیسائی تم سے ہرگز راضی نہ ہوں گے ، جب تک تم ان کے طریقے پر نہ چلنے لگو۔ “ (120:2)

یہ قرآن مجید کا زندہ جاوید معجزہ ہے کہ قرآن نے ان یہودیوں کو جس صفت سے موصوف کیا وہ صفت آج تک ان کے ساتھ چپکی ہوئی ہے اور یہ صفت ہے جو ان کی ہرنسل میں ان کے ساتھ لازم رہی ہے ۔ خواہ وہ نسل قبل اسلام گزری ہو یا اسلام کے بعد آج تک کسی دور میں رہی ہو ۔ قرآن کریم ان کو یوں خطاب کرتا ہے گویا یہود ان یثرب بذات خود حضرت موسیٰ اور آپ کے بعد آنے والے انبیاء (علیہم السلام) کے ادوار میں موجود تھے۔ کیونکہ اول روز سے بنی اسرائیل کی یہی فطرت رہی ہے ۔ ان کے اوصاف وہی ہیں ۔ ان کا طرزعمل وہی ہے اور حق وصداقت کے ساتھ وہ ہر دور اور ہر زمانے میں ایک ہی برتاؤ کرتے چلے آئے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ دوران کلام قوم موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد آنے والی اسرائیلی نسلوں کی طرف بھی اشارے ملتے ہیں ۔ اور قرآن مجید کے یہ زندہ کلمات آج بھی امت مسلمہ اور یہودیوں کے باہم تعلق اور موقف کو ظاہر کررہے ہیں اور بتا رہے ہیں کہ یہودی دعوت اسلامی اور امت مسلمہ کے مقابلے میں آج بھی وہی طرز عمل اختیار کررہے ہیں جو انہوں نے آج سے صدیوں قبل اختیار کیا اور یہی ان کا طرزعمل مستقبل میں بھی ہوگا۔ یہ قرآنی آیات اس وقت امت مسلمہ کے لئے ایک دائمی ہدایت اور تنبیہ کی حیثیت رکھتی تھیں اور آج بھی وہ یہی بتارہی ہیں کہ اعداء اسلام نے ہمارے اسلاف کے ساتھ جو رویہ روا رکھا تھا وہی پالیسی وہ آج بھی اختیار کریں گے ۔ آج بھی ان کی ریشہ دوانیاں اور مکر و فریب ویسے ہی ہیں جیسے یثرب میں تھے ۔ وہ ہر دور میں اسلام کے خلاف مختلف اور متنوع طریقوں سے برسرپیکار ہے ۔ لیکن اس جنگ کی حقیقت صرف ایک رہی یعنی اسلام دشمنی ۔

غرض اس صورت میں جہاں یہودیوں کے یہ اوصاف بیان ہوئے ہیں اور مسلمانوں کو ان کی سازشوں سے متنبہ کیا گیا ، وہاں اسلامی جماعت کی تشکیل اور اس دنیا میں اسلامی نظریہ حیات کی امانت کی ذمہ داریاں اٹھانے کے لئے ، اسے تیار کرنے اور اس کی تربیت کرنے کے طریقے بھی بتائے گئے ہیں ، جبکہ بنی اسرائیل ایک زمانے سے اس امانت کی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام ہوچکے تھے اور آخر میں انہوں نے اس نظریہ حیات کے بارے میں یہ معاندانہ رویہ اختیار کرلیا تھا۔

جیسا کہ ہم پہلے کہہ آئے ہیں سورت کا آغاز ان طبقات کے ذکر سے ہوتا ہے جنہوں نے ہجرت کے متصلاً بعد تحریک اسلامی کے بارے میں مختلف طرز ہائے عمل اختیار کر رکھے تھے ۔ ان طبقات میں شیاطین بنی اسرائیل کی طرف مخصوص اشارے بھی تھے ۔ جن کا ذکر بعد میں مفصل ہوا۔ اس سورت کے آغاز میں جن طبقات کا ذکر ہوا ہے ان کی نوعیت ایسی ہے کہ ہر دور اور ہر زمانے میں دعوت اسلامی کے مقابلے میں لوگوں نے ایسے ہی طرز عمل اختیار کئے ۔ اس کے بعد پوری سورت کے مباحث اپنے انہی متوازی خطوط پر چل رہے ہیں جن میں اس وحدت ویگانت کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ جس سے اس سورت کی خاص شخصیت کا ظہور ہورہا ہے ، حالانکہ اس کے موضوعات سخن میں کافی تنوع پایا جاتا ہے۔

کافرین اور منافقین کے تین طبقات کے ذکر اور شیاطین یہود کی طرف اشارات کے بعد اب تمام انساں کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ صرف ایک اللہ کی بندگی کریں اور اللہ نے اپنے بندے پر جو کتاب نازل کی ہے ، اس پر ایمان لے آئیں ۔ کافروں کو چیلنج دیا جاتا ہے کہ اگر وہ کتاب کی صداقت میں شک کرتے ہیں تو پھر اس جیسی کوئی ایک سورت لے آئیں ، کافروں کو آگ سے ڈرایا جاتا ہے اور مومنین کو جنتوں کی خوشخبری دی جاتی ہے ۔ اس کے بعد کافروں کو غور وفکر کی دعوت دی جاتی ہے اور متعجبانہ انداز میں ان کے کفر کی تردید کی جاتی ہے ۔

” تم اللہ کے ساتھ کفر کا رویہ کیسے اختیار کرتے ہو ؟ حالانکہ تم بےجان تھے ، اس نے تمہیں زندگی عطا کی ، پھر اسی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے ۔ وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے زمین کی ساری چیزیں پیدا کیں ۔ پھر اوپر کی طرف توجہ فرمائی اور سات آسمان استوار کئے اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے ۔ “ (29:2)

اس حقیقت کی طرف اشارے کے بعد ، کہ زمین کی تمام مخلوقات کو انسان کے لئے پیدا کیا گیا ہے ، حضرت آدم (علیہ السلام) کی خلافت فی الارض کا بیان شروع ہوجاتا ہے۔

” پھر ذرا اس وقت کا تصور کرو ، جب اس کے رب نے فرشتوں سے کہا تھا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں ۔ “ اس کے بعد قصے کی تفصیلات بیان ہوتی ہیں ۔ آدم وابلیس کا معرکہ پیش آتا ہے اور آخرکار آدم (علیہ السلام) کا نزول ہوتا ہے اور زمین کے اندر ” عہد خلافت آدم “ کا آغاز ہوتا ہے ۔ جو دراصل دور ایمان ہے۔

ہم نے کہا ” تم سب یہاں سے اتر جاؤ۔ پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمہارے پاس پہنچے تو یہ لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے ، ان کے لئے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا اور جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے ، وہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں ، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ “ (39:2)

اس کے بعد بنی اسرائیل کی تاریخ پر طویل ترین تبصرہ شروع ہوتا ہے جس کے چند فقرے ہم اسے پہلے نقل کر آئے ہیں ۔ اس تبصرے اور تنقید کے درمیان جگہ جگہ انہیں دعوت دی جاتی ہے کہ وہ اسلامی نظام حیات کو اپنالیں اور اس کتاب پر ایمان لے آئیں جو ان کتابوں کی تصدیق کررہی ہے جن کے حامل وہ خود ہیں ۔ ساتھ ساتھ انہیں یہ تنبیہ کی جارہی ہے کہ انہوں نے کیا کیا کو تاہیاں کیں۔ کس طرح وہ راہ راست سے بھٹکتے رہے اور حق و باطل کی آمیزش کرتے رہے ۔ بنی اسرائیل کے ساتھ بحث وتمحیص قرآن مجید کے پہلے پارے کے آخر تک پھیلی ہوئی ہے۔

اس پوری بحث سے اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ بنی اسرائیل نے دین اسلام ، نبی ﷺ اور قرآن مجید کا استقبال کس طرح کیا ۔ سب سے پہلے انہوں نے کفر کارویہ اختیار کیا ۔ انہوں حق و باطل کی تلبیس کی ، وہ دوسرے لوگوں کو تو یہ مشورہ دیتے کہ وہ ایمان لے آئیں لیکن خود اپنے آپ کو بھول جاتے ۔ وہ کلام اللہ سنتے ، اچھی طرح سمجھتے لیکن اس کے بعد اس کو غلط معانی پہنا کر جھوٹا پروپیگنڈا کرتے ۔ وہ پہلے ایمان کا اظہار کرتے اور پھر کفر کا اعلان کرکے مومنین صادقین کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے اور جب آپس میں اکھٹے ہوتے تو ایک دوسرے کو بتاکید یہ کہتے کہ ” خبردار ! وہ راز کی باتیں مسلمانوں کو نہ بتانا ، جو حضرت نبی ﷺ کے بارے میں کتب سابقہ میں وارد ہیں اور جنہیں انہوں نے چھپا رکھا تھا۔ انہوں نے کوششیں کیں کہ کسی طرح مومنین کو دوبارہ کفر کی روش پر مجبور کردیں ۔ وہ یہ دعویٰ کرتے تھے کہ صحیح اہل ہدایت ہیں ہی یہود ۔ جیسا کہ نصرانیوں کا خیال تھا کے روئے زمین پر اہل ہدایت صرف وہ ہیں وہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے محض اس لئے دشمن ہوگئے تھے کہ بقول ان کے انہوں نے ان کو چھوڑ کر پیغام خداوندی حضرت محمد ﷺ کے پاس پہنچادیا ۔ وہ مسلمانوں کی ہر کامیابی پر متغیض ہوجاتے اور ان کی بربادی کے منتظر رہتے ، وہ ہر لحظہ یہ کوشش کرتے کہ وحی الٰہی اور نبی ﷺ کے احکام واوامر میں شک پیدا کیا جائے ۔ اور تحویل قبلہ کے موقع پر تو ان کے پروپیگنڈے کی تو کوئی انتہانہ رہی ۔ منافقین کے ساتھ ربط وضبط رکھتے تھے اور ہر وقت ان کی راہنمائی کرتے تھے اور مشرکین کی حوصلہ افزائی کھل کر کرتے تھے ۔

یہی وجہ ہے کہ اس سورت میں ان کے کردار پر سخت ترین تنقید پائی جاتی ہے اور سورت انہیں یاددلاتی ہے کہ انہوں نے یہی طرز عمل خود اپنے نبی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلے میں اختیار کیا تھا اور آپ کے بعد بھی انبیاء ورسل کے ساتھ یہ لوگ ایسا سلوک کرتے رہے ۔ نسلوں تک ان کا رویہ یہی رہا ۔ قرآن کریم انہیں اس طرح مخاطب کرتا ہے کہ بنی اسرائیل جہاں اور جس دور میں بھی ہوں گویا وہ ایک ہی گروہ ہے کیونکہ وہ ایک ہی فطرت اور جبلت رکھتے ہیں جس میں کبھی بھی تبدیلی نہیں ہوتی ۔

اس طویل ترین تنقید کے آخر میں مسلمانوں کو بنی اسرائیل کے ایمان سے مایوس کردیا جاتا ہے کیونکہ ان کی یہ خود غرضانہ ذہنیت اور مطلب پرستی اور سڑی ہوئی اور خبیث طبعیت ان کے ایمان کی راہ میں رکاوٹ ہے اور بالآخر یہ تقریر ان کے اس دعوے کی تردید پر ختم ہوتی ہے کہ ” صرف وہی ہدایت پر ہیں کیونکہ وہی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے وارث ہیں “ اور بتایا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے صحیح وارث وہی لوگ ہیں جو سنت ابراہیمی پر چلتے ہیں اور اس عہد کی پابندی کرتے ہیں جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے رب کے ساتھ باندھا تھا لہٰذا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی وراثت اور جانشینی گویا اب حضرت محمد ﷺ اور مومنین کو حاصل ہوگئی ہے ، کیونکہ یہودی راہ راست سے بھٹک گئے ، اپنے دین کو تبدیل کردیا اور اب وہ اسلامی نظریہ حیات کی امانت کی حفاظت کے اہل اور اس زمین پر منصب خلافت الٰہی کے قابل نہیں رہے لہٰذا یہ ذمہ داری اب حضرت محمد ﷺ اور آپ پر ایمان لانے والوں نے اپنے کاندھوں پر لے لی ۔ خانہ کعبہ کی بنیادیں اٹھاتے وقت حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل (علیہما السلام) نے جو دعا کی تھی امت مسلمہ کا برپا ہونا گویا اس دعا کی قبولیت کا مجسم ظہور تھا ، انہوں نے کہا تھا :

” اے رب ہم دونوں کو اپنا مطیع بنا ، ہماری نسل سے ایک ایسی امت اٹھا ، جو تیری مسلم ہو ، ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتا اور ہماری کوتاہیوں سے درگزرفرما ، تو بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے اور اے رب ان لوگوں میں خود انہی کی قوم سے ایک ایسا رسول اٹھائیو جو انہیں تیری آیات سنائے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیاں سنواردے ۔ تو بڑامقتدر اور حکیم ہے۔ “ (129:2)

اب یہاں سے قرآن مجید کا خطاب اور روئے سخن نبی ﷺ اور آپ کے گرد جمع ہونے جماعت مسلمہ کی طرف پھرجاتا ہے اور وہ اصول وقواعد بیان کئے جاتے ہیں جن پر اس نئی جماعت کی تشکیل ہوئی ہے جو دعوت دین کا کام لے کر اٹھی ہے اور یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اس جماعت کا ایک خاص مزاج ہے اور نظریہ وعمل میں وہ ایک مخصوص زاویہ نگاہ رکھتی ہے۔

امت مسلمہ کی خصوصیات کا بیان تحویل قبلہ سے شروع ہوجاتا ہے ۔ وہ سمت متعین ہوجاتی ہے جس کی امت مسلمہ کو متوجہ ہونا ہے ۔ یہ نیا قبلہ بیت الحرام ہے جو حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل (علیہما السلام) نے اللہ کے خاص احکامات کے تحت تعمیر کیا تھا۔ اللہ نے انہیں حکم دیا تھا کہ وہ اسے تعمیر کریں اور پاک وصاف کریں تاکہ وہاں صرف ایک اللہ تعالیٰ کی پرستش کی جائے ۔ خود نبی ﷺ کی خواہش یہی تھی کہ قبلہ بدل دیا جائے لیکن آپ نے کبھی اس کا اظہار نہ کیا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

” یہ تمہارے منہ کا باربار آسمان کی طرف اٹھنا ہم دیکھ رہے ہیں ۔ لو ہم اس قبلے کی طرف تمہیں پھیرے دیتے ہیں ، جسے تم پسند کرتے ہو۔ مسجد حرام کی طرف رخ پھیر دو اب جہاں کہیں تم ہو ، اس طرف منہ کرکے نماز پڑھا کرو۔ “ (142:2)

اس کے بعد اسلامی نظام حیات کی تفصیلات بیان کی جاتی ہیں ، جس پر اس جماعت نے عمل پیرا ہونا ہے ۔ نظریہ حیات اور طریق عبادت اور سلوک ومعاملات کا بیان شروع ہوجاتا ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ راہ حق میں جو لوگ جانیں دیتے ہیں انہیں مردہ نہ سمجھو وہ تو زندہ جاوید ہیں ۔ بتایا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں خوف ، بھوک ، مالی نقصانات ، فصلوں اور پھلوں کی تباہی جیسی ابتلائیں محض اذیتیں نہیں ہوتیں بلکہ وہ آزمائشیں ہوتی ہیں ۔ اور یہ ہمیشہ ان لوگوں کی راہ میں آتی ہیں جو دعوت حق کو لے کر اٹھتے ہیں ۔ تنبیہ کی جاتی ہے کہ حق و باطل کی کشمکش میں شیطان تمہیں فقر ومسکنت سے ڈراتا ہے اور فحاشی اور بےحیائی پر آمادہ کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ تم سے یہ ہوتا ہے کہ وہ تمہیں بخش دے گا۔ اور تمہیں اپنے فضل سے نوازے گا ۔ یہ کہ اللہ تعالیٰ مومنین کا والی اور مددگار ہے اور وہ انہیں ان اندھیروں میں سے روشنی کی طرف نکالتا ہے اور کافروں کے والی طاغوت ہیں جو انہیں روشنی سے نکال کر اندھیروں میں پھینک دیتے ہیں ۔ اس کے بعد کھانے پینے کی چیزوں میں حلال و حرام احکامات بیان کئے جاتے ہیں ۔ بتایا جاتا ہے کہ نیکی کی حقیقت کیا ہے ۔ صرف ظاہری شکل و صورت ہی کو دیکھ کر نیک و بد کا فیصلہ نہ کرنا چاہئے ۔ پھر قتل میں قصاص کے احکام ، وصیت کے احکام روزے کے احکام ، جہاد کے احکام ، حج کے احکام اور نکاح و طلاق کے احکام بیان کئے جاتے ہیں ۔ اسلام کے عائلی نظام کی دقیق شیرازہ بندی کی جاتی ہے ۔ اور نظام معیشت میں زکوٰة ، ربا کی حرمت ، لین دین اور تجارت کے احکامات بیان ہوتے ہیں ۔

ان تمام موضوعات پر بحث کرتے ہوئے دوران گفتگو ، موقع ومحل کی مناسبت سے ، موسیٰ (علیہما السلام) کے بعد بنی اسرائیل کے حالات کی طرف اشارہ بھی کیا جاتا ہے ۔ اور حضرت ابراہیم (علیہما السلام) کی زندگی کے کچھ پہلو بھی بیان ہوتے ہیں ۔ لیکن پہلے پارے کے بعد پوری سورت میں روئے سخن مستقلاً اسلامی جماعت کی طرف پھرجاتا ہے ۔ اسے اسلامی نظام حیات کی ذمہ داریوں کو اٹھانے اور اللہ کی شریعت کے مطابق ، زمین میں نظام خلافت کے قیام کی ذمہ داریوں کے لئے تیار کیا جاتا ہے اور اس طرح امت مسلمہ کو تمام دوسری امتوں سے ممتاز کردیا جاتا ہے ۔ کیونکہ یہ امت خود اس کائنات اور رب کائنات (جس نے اس امت کو اس عظیم منصب کے لئے چنا ) کے درمیان ربط وتعلق کی نوعیت کے بارے میں ایک مخصوص نقطہ نظر رکھتی ہے۔

سورت کے آخر میں پہنچ کر ہم دیکھتے ہیں کہ کلام کے خاتمے میں سورت کے ابتدائیہ کو دہرایا جاتا ہے۔ ایمانی نظریہ حیات کی حقیقت کی وضاحت ہوتی ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ امت مسلمہ تمام انبیاء پر ایمان رکھتی ہے ۔ نیز تمام کتب سماوی پر اس کا ایمان ہے اور وہ انبیاء کے بیان کردہ امور غیبیہ پر بھی یقین رکھتی ہے اور انبیاء کی تعلیمات کو مانتی ہے اور دل وجان سے مطیع فرمان ہے۔ فرمایا جاتا ہے :

” رسول اس ہدایت پر ایمان لایا ہے جو اس کے رب سے اس پر نازل ہوئی ہے اور جو لوگ اس رسول اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو مانتے ہیں ۔ اور ان کا قول یہ ہے کہ ” ہم اللہ کے رسولوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتے ، ہم نے سنا اور اطاعت قبول کی ۔ مالک ! تجھ سے خطا بخشی کے طالب ہیں اور ہمیں تیری ہی طرف پلٹنا ہے ۔ اللہ کسی متنفس پر ، اس کی مقدرت سے بڑھ کر ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا ، ہر شخص نے جو نیکی کمائی ہے ، اس کا پھل اس کے لئے ہے اور جو بدی سمیٹی ہے اس کا وبال اسی پر ہے ۔ (ایمان لانے والو ! تم یوں دعا کیا کرو) اے ہمارے رب ! ہم سے بھول چوک میں جو قصور ہوجائیں ، ان پر گرفت نہ کر ۔ مالک ! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جو ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے ۔ پروردگار ! جس بار کو اٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں ہے ، وہ ہم پر نہ رکھ ۔ ہمارے ساتھ نرمی کر ، ہم سے درگذر فرما ، ہم پر رحم کر ، تو ہمارا مولیٰ ہے ، کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر۔ “

اسی طرح آغاز و انجام کے درمیان پوری پوری یک رنگی پائی جاتی ہے اور سورت کے تمام موضوعات سخن مومنین صادقین کی صفات اور خصوصیات کے ان دوبیانوں کے درمیان سمٹ جاتے ہیں ۔

(بہت طویل ہونے کی وجہ سے اس آیت کی مکمل تفسیر شامل نہیں کی جا سکی۔ ہم اس کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ برائے مہربانی اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ فی ظلال القرآن جلد سے پڑھیں)

Maximize your Quran.com experience!
Start your tour now:

0%