ابتدأً یہ حکم تھا کہ اگر روزہ دار افطار کے بعد سوجائے تو اس پر کھانا پینا اور بیویوں کے پاس جانا حرام ہے ۔ اگر کسی کی آنکھ لگ جاتی اور پھر وہ اٹھتا تو اگرچہ طلوع فجر سے پہلے اٹھتا ۔ اس کے لئے بیوی کے پاس جانا اور کھانا پیناحرام ہوتا ۔ بارہا ایسا ہوتا کہ ایک صحابی پر افطار کے وقت نیند کا غلبہ ہوگیا اور آنکھ لگ گئی ۔ اب اس کے سوا کوئی اور چارہ نہ تھا کہ وہ مسلسل دوسرے دن روزہ رکھے ۔ ایک صاحب کے ساتھ ایسا ہی ہوا ۔ دوسرے دن اس نے بڑی مشکل سے روزہ پورا کیا ۔ بات نبی کریم ﷺ تک پہنچی ۔ اس طرح ایسے واقعات بھی ہوئے کہ افطار کے بعد ایک صاحب سوگئے ، بیوی بھی سو گئی ۔ جب جاگے تو ہم بستری کی اور رسول ﷺ تک بات پہنچ گئی ۔ ان واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمانوں پر یہ حکم بھاری ہورہا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس مشکل حکم کو منسوخ کردیا اور معاملہ آسان ہوگیا ۔ چونکہ روزے کے ان احکام میں مشکلات کا سامنا وہ کرچکے تھے ۔ تجربہ ان کے ذہن میں تھا ، اس لئے اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم کو انہوں نے خوب محسوس کیا ۔ آیت نازل ہوئی اور ان کے لئے مغرب اور طلوع فجر کے درمیان کھنا پینا اور بیوی کے پاس جانا جائز قرار دیا گیا۔
أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَائِكُمْ ” تمہارے لئے روزوں کے مہینے میں راتوں کو اپنی بیویوں کے جانا جائز قرار دیا گیا ہے۔” الرفث “ کا مفہوم مباشرت کا آغاز ہے یا عین مباشرت ۔ یہاں دونوں کا جواز مقصود ہے ۔ دونوں جائز ہیں لیکن دوران بیان ، قرآن مجید پر ایک نظر پھیرتا ہوا خوشگوار تاثر چھوڑے بغیر نہیں رہتا ۔ میاں بیوی کے اس تعلق کے اندر ابریشم کی ملائمت ، تازگی اور شیشے کی سی صفائی پیدا کی جاتی ہے ۔ نیز اس کو حیوانی درشتگی اور حیوانی نقائص سے پاک کردیا جاتا ہے۔ “
هُنَّ لِبَاسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَهُنَّ ” وہ تمہارے لئے لباس ہیں اور تم ان کے لئے لباس ہو۔ “ لباس پردہ پوشی کرتا ہے ۔ گرمی سردی سے بچاتا ہے ، اسی میاں بیوی کا باہمی تعلق دونوں کا پردہ پوش ہے ۔ ان کا محافظ ہے۔ اسلام مخلوق انسانی کو اس کی حقیقت واقعیہ کے لحاظ سے دیکھتا ہے ۔ اور حقیقت واقعیہ کے لحاظ سے اس کے فطری تقاضوں کو بھی پورا کرتا ہے اور اس طرح یہ نظام انسان کا ہاتھ پکڑ کر اسے بلندیوں تک پہنچا دیتا ہے۔ یہ ہے اسلام اور یہ ہے اس کا نظریہ حیات ۔ وہ گوشت و پوست کے فطری تقاضے پورے کرتا ہے اور پورے بھی کرتا ہے خوشگوار اور لطیف فضا میں ، پاکیزگی کے لطیف پردوں میں۔
اللہ علیم وخبیر ہے ۔ وہ بتا دیتا ہے کہ تمہارے خفیہ جذبات کیا ہیں ؟ اور پھر دکھاتا ہے کہ وہ تمہارے فطری دواعی پورنے کرنے کے لئے تمہاری حاجات کو پوری کرتا ہے۔
عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُونَ أَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنْكُمْ ” اللہ کو معلوم ہوگیا کہ تم لوگ چپکے چپکے اپنے آپ سے خیانت کررہے تھے ، مگر اس نے تمہارا قصور معاف کردیا اور تم سے درگزر فرمایا۔ “ یہ خیانت کیا تھی ؟ ان کے دلوں میں دبی ہوئی خواہشات تھیں ۔ خفیہ جذبات تھے جو ارتکاب جرم کا تقاضا کررہے تھے ۔ یا مراد یہ ہے کہ تم چوری چھپے اس حکم کو توڑ رہے تھے ۔ جیسا کہ بعض روایات میں آتا ہے کہ بعض حضرات سے اس کی خلاف ورزی کا ارتکاب ہوا لیکن دونوں قسم کے حضرات کو اللہ تعالیٰ نے معاف کردیا۔ چونکہ ان کی کمزوری اور ناتوانی ظاہر ہوگئی تھی ، اللہ تعالیٰ جانتے تھے چناچہ ان کی حاجت روائی کردی گئی فَالآنَ بَاشِرُوهُنَّ ” اب تم اپنی بیویوں کے ساتھ شب باشی کرو۔ “
لیکن اس کا جواز بھی رضائے باری سے جوڑ دیا گیا۔ حکم دیا گیا کہ اس میں بھی تم اللہ کی طرف متوجہ وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ ” اور جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے اسے حاصل کرو۔ “ یعنی عورتوں سے جو لطف اندوزی اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے جائز کردی ہے ، اس سے فائدہ اٹھاؤ اور اس کے نتیجے میں آنے والی اولاد سے بھی بہرمند بنو۔ دونوں چیزیں حکم خداوندی میں شامل ہیں ۔ دونوں وہ سامان ہیں جن کا حاصل کرنا اور جن سے لطف اندوزہونا اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے جائز قرار دے دیا ہے لیکن اس لطف اندوزی کے پس منظر میں گہری حکمت پوشیدہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ ایک بامقصد فریضہ ہے ۔ یہن جسمانی طلب اور مجرد حیوانی تلذذ ہی نہیں ہے جس کا تعلق محض جس سے ہو ۔ اس طرح میاں بیوی کے درمیان تعلق ایک بلند مقصد سے مربوط ہوکر فریضہ فطرت قرار پاتا ہے ۔ وہ لطف ولذت کے مختصر لمحے کے بجائے انسانیت کے افق پر ایک بامقصد قرار پاتا ہے ۔ اسلامی نظام حیات اور اسلام کی طرز زندگی کے اندر اس قسم کے اشارات و ارشادات دیکھ کر معلوم ہوجاتا ہے کہ اسلام انسانی زندگی کے اندر کیا انقلاب لانا چاہتا ہے اور اسے کن خطوط پر ترقی دینا ہے یہ تمام کام وہ انسان کے حدود میں ، اس کی قوت برداشت کے اندر اور اس کی پیدائشی مزاج کے مطابق سر انجام دیتا ہے ۔ یہ ہے تربیت ، سربلندی اور ترقی کا اسلامی نظام ۔ جس کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ ہے ، جو اسے مخلوقات کے حالات سے خوب خبردار ہے ۔ جو باریک بین اور لطیف وخبیر ہے۔
ان اوقات میں جس طرح بیوی کے پاس جانے کی اجازت دی گئی اسی طرح ان اوقات میں کھانے پینے کی اجازت بھی مل گئی۔ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ” راتوں کو کھاؤ یہاں تک کہ تم کو سیاہی شب کی دھاری سے سپیدہ صبح کی دھاری نظر آجائے ۔ “ یعنی اس وقت تک افق اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر روشنی پھیل جائے ۔ اس سے مراد افق پر سفید دھاری کا محض ” ظہور “ نہیں ہے۔ اس کو فجر کاذب کہتے ہیں ۔ روزہ بند کرنے کے سلسلے میں جو روایات وارد ہیں ان کا مطالعہ کرنے کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ وقت طلوع الشمس سے تھوڑا پہلے ہے ۔ آج کل ہمارے علاقے میں عام طور پر جو اوقات مقرر ہیں ہم انہی کے مطابق روزہ رکھتے ہیں ۔ یہ اوقات شرعی وقت سے قدرے پہلے ہی ہیں اور مزید احتیاط کے لئے مقرر کئے گئے ہیں ۔
ابن جریر (رح) نے اپنی سند سے ، سمرہ بن جندب ؓ سے روایت کی ہے ۔ فرماتے ہیں رسول ﷺ نے فرمایا :” ت میں بلال کی اذان اور ” مستطیل صبح “ کہیں تمہیں سحری سے نہ روک دے ۔
اس سے مراد وہ صبح ہے جو افق میں پھیل جائے (المستطیر) اور طلوع آفتاب سے قدرے پہلے صبح پھیلتی ہے ۔ ہوتا یہ تھا کہ حضرت بلال سوئے ہوئے لوگوں کو سحری سے آگاہ کرنے کے لئے بہت سویرے اذان دیتے تھے اور ابن مکتوم آخر میں روزہ بند کرنے کے لئے اذان دیتے تھے ۔ اس لئے کہا گیا کہ تم اذان بلال سے دھوکہ نہ کھاجاؤ۔
اس کے بعد مساجد میں اعتکاف کے دوران مباشرت کے حکم کا بیان ہوتا ہے۔ اعتکاف کے معنی ہیں مسجد میں علیحدہ ہوکر اللہ کی طرف متوجہ ہونا اور سوائے حاجات ضروریہ کے مسجد سے نہ نکلنا ۔ مثلاً کھانا پینا قضائے حاجت وغیرہ۔ یہ مستحب ہے اور رمضان شریف کے آخری عشرے میں کیا جاتا ہے ۔ رمضان شریف کے آخری عشرے میں رسول اللہ ﷺ اس پر عمل پیرا ہوتے تھے ، اعتکاف کا عرصہ عام معمولات زندگی سے الگ ہوکر صرف اللہ کی طرف متوجہ ہونے کا عرصہ ہوتا ہے ۔ اس لئے تجرد اور علیحدگی کو مکمل کرنے کے لئے حکم دیا گیا کہ اس عرصے میں بیویوں کے پاس جانے سے بھی اجتناب ہونا چاہئے ۔ تاکہ نفس انسانی تمام آلائشوں سے علیحدہ ہوجائے اور دل تمام مشغولیات سے پاک ہوجائے۔
وَلا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ ” اور جب تم مسجدوں میں معتکف ہو تو بیویوں سے مباشرت نہ کرو۔ “ چاہے روزہ کا وقت ہو یعنی دن یا افطار کا وقت ہو یعنی رات۔
سب سے آخر میں تمام معاملے کو ذات باری کے ساتھ مربوط کردیا جاتا ہے ۔ جیسا کہ ہر انضباطی حکم اور ہدایت کے معاملے میں قرآن مجید کا مستقل انداز بیان ہے ۔ یعنی ہر امر میں ، ہر نہی میں ہر حرکت میں اور ہر سکون میں۔
تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلا تَقْرَبُوهَا ” یہ اللہ کی باندھی ہوئی حدیں ہیں ، ان کے قریب نہ پھٹکنا۔ “
یہاں اس شدت سے روکا گیا ہے کہ قریب ہی مت جاؤ، تاکہ انسان اور ممنوعات کے درمیان امن کا ایک لازمی علاقہ موجود ہو۔ جو چرندہ چراگاہ کے اردگرد گھومتا ہے آخر کار اس میں داخل ہوجاتا ہے اور ہر وقت انسان بھی اپنے نفس کی نگرانی نہیں کرسکتا۔ اس لئے اس کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ ایسی ممنوعات کے قریب گھومتا رہے جو مرغوب ہوں اور پھر اس اعتماد پر کہ وہ جب چاہے گا اپنے نفس پر قابو پالے گا ۔ کسی شخص کے لئے مناسب نہیں کہ وہ اپنے آپ کو ایسے خطرناک امتحان میں ڈالے ، چناچہ یہ امت ایسے ہی معاملے سے وابستہ ہے جو پر لطف ہے اور مرغوبات میں سے ہے ۔ اس لئے حکم دیا گیا ہے کہ قریب ہی مت جاؤ۔ حالانکہ مقصد صرف یہ ہے کہ ان ممنوعات کے اندر مبتلاہونے سے بچو کہ قریب جانے کی ممانعت نہیں ہے۔ مطلب صرف یہ ہے کہ احتیاط اور خدا خوفی سے کام لینا چاہئے كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَاس طرح اللہ اپنے احکام لوگوں کے لئے بصراحت بیان کرتا ہے ۔ توقع ہے کہ وہ غلط رویے سے بچیں گے ۔ “ بتایا جاتا ہے کہ نزول قرآن اور تبلیغ آیات کا آخری مقصد خدا خوفی کا حصول ہے۔ یہ وہ قیمتی اور عظیم مقصد ہے جس کی اہمیت اور قدر و قیمت صرف ان لوگوں کے ہاں ہے جو ایمان لانے والے ہیں اور جو ہر دور میں قرآن کے طالب ہیں ۔
روزہ کے بیان کی مناسبت سے ، کھانے کی ایک اور قسم کی بھی ممانعت کی گئی ہے ۔ اور وہ ہے لوگوں کا مال ناجائز طور پر کھانا ، انہیں مقدمات میں ملوث کرنا ۔ چالاکی سے انہیں پھنسانا اور ان کے خلاف حکام کے سامنے شواہد اور قرائن فراہم کرنا اور چالاکی اور چرب زبانی سے ان کے خلاف ڈگری حاصل کرلینا ۔ یہ سخت ممنوع ہے ۔ کیونکہ حاکم تو مقدمہ کے ظاہری حالات اور شہادت و دلائل کے مطابق ہی فیصلہ کرے گا۔ اور اگر جھوئی شہادتیں پیش کردی جائیں تو یہ فیصلہ خلاف موقع ہوگا اس لئے یہ ممانعت اللہ کے مدد کے ذکر کے بعد خدا خوفی اور خدا ترسی کی مسلسل دعوت کے بعد کی گئی ہے تاکہ نہی کا یہ اہم حکم خدا خوفی کے ایسے ماحول میں وارد ہو جو انسان کو ارتکاب ممنوعات باز رکھے ۔