چناچہ مزید وضاحت کی خاطر قرآن کریم مثالیں دے کر اس گروہ کی نفسیات ، اس کے مزاج کے تلون ، اس کی بےثباتی اور قلابازیوں کی مزید نشان دہی کرتا ہے کہ ایسے افراد کے خدوخال نکھر کر ہمارے سامنے آجائیں ۔
مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِي اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَهُ ذَهَبَ اللَّهُ بِنُورِهِمْ وَتَرَكَهُمْ فِي ظُلُمَاتٍ لا يُبْصِرُونَ
” ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے آگ روشن کی اور جب سارا ماحول چمک اٹھا تو اللہ نے ان کا نور بصارت سلب کرلیا اور انہیں اس حال میں چھوڑ دیا کہ تاریکیوں میں انہیں کچھ نظر نہیں آتا ۔ یہ بہرے ہیں ، گونگے ہیں ، اندھے ہیں ، اسی لئے یہ اب نہ پلٹیں گے ۔ “
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء میں ان کا رویہ ایسا نہ تھا کہ انہوں نے ہدایت سے اعراض کیا ہو ، یا اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لی ہوں ، آنکھیں بند کرلی ہوں اور نہ یہ صورت تھی کہ انہوں نے اس تحریک کے مطالعے سے انکار کیا ہو ، جیسا کہ کفار نے کیا لیکن بعد میں انہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی کو پسند کرلیا اور یہ فیصلہ انہوں نے سوچ سمجھ کر غور وخوض کے بعد کیا ۔ انہوں نے آگ جلائی ۔ اس نے ان کے ماحول کو روشن بھی کیا لیکن انہوں نے اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا حالانکہ وہ روشنی کے متلاشی تھے۔ جب ان لوگوں نے اپنی مطلوب روشنی کو پاکر بھی اس منہ موڑا تو اللہ نے ان کے اس رویے کی وجہ سے ان کا نور بصارت ہی سلب کرلیا اور انہیں اس حال میں چھوڑدیا کہ تاریکی میں بھٹکتے پھریں کیونکہ انہوں نے عین اس چیز سے منہ موڑا جس کے وہ طالب تھے ۔