You are reading a tafsir for the group of verses 28:86 to 28:88
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

وما کنت ترجوا ۔۔۔۔۔ من ربک

یہ اس مسئلہ پر ایک فیصلہ کن بات ہے کہ رسالت سے پہلے رسول اللہ ﷺ کو کوئی امید نہ تھی کہ آپ رسول ﷺ بھی ہوسکتے ہیں۔ پس یہ اللہ کا اچانک انتخاب تھا۔ اور اللہ جو چاہتا ہے ، پیدا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ، منتخب کرتا ہے۔ یہ اس قدر بلند منصب ہے کہ اس کے لیے کوئی انسان قبل از وقت توقع بھی نہیں کرسکتا ، سوچ بھی نہیں سکتا کہ اللہ اسے اس منصب کے لیے چن لے گا یا اللہ اسے اس کے اہل بنا دے گا۔ یہ اللہ کا محض رحم و کرم ہوتا ہے۔ کسی شخص پر یا کسی قوم پر کہ ان میں سے کسی کو اللہ چن لیتا ہے اور یہ انتخاب ان کا ہوتا ہے جو اللہ کے اونچے بندے ہوں ، ان کا انتخاب نہیں ہوتا جو اس منصب کے امیدوار ہوتے ہیں۔ مکہ کے ماحول میں عربوں میں اور اسرائیل میں بہت سے لوگ تھے۔ اس انتظار میں تھے کہ نبی آخر الزمان آنے والا ہے ، لیکن وہ کون ہوگا ، یہ اللہ ہی جانتا ہے کہ وہ منصب رسالت کہاں لے جا کر رکھ دے۔ اللہ نے اس قوم اور اس شخص کو اس منصب کے لیے چن لیا جو اس کے لیے نہ امیدوار تھا اور نہ اس کو اس کا خیال تھا کیونکہ اللہ جہاں منصب نبوت دیتا ہے اس کے لیے پہلے اس کو قبولیت کے لیے فیض عظیم اور استعدادوافر عطا کرتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ حضور ﷺ کو حکم دیا جاتا ہے چونکہ آپ کو یہ کتاب دی گئی جس کے مطابق آپ ﷺ نے حق پر فیصلے کرنے ہیں ، لہٰذا کافروں کے مددگار بنیں ، کیونکہ وہ تو آپ کو اللہ کی ان روشن نشانیوں سے روک دیں گے۔ بلکہ آپ مشرکین کے مقابلے میں صاف صاف عقیدہ توحید پر مبنی دعوت لے کر اٹھیں۔

فلا تکونن ظھیرا للکفرین ۔۔۔۔۔۔۔ لہ الحکم والیہ ترجعون (86 – 88)

اس سورت کے آخر میں یہ انسانی عقل و خرد کے تاروں پر آخری ضرب ہے۔ اس فیصلہ کن ضرب میں بتا دیا جاتا ہے کہ آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے راستے اور مشرکین اور مشرکین کے طریقے کے درمیان بڑے فاصلے ہیں۔ آپ کو متبعین قیامت تک آپ ﷺ کی راہ اور اس کی نشانات پر رہیں۔ یہ فیصلہ کن بات آپ ﷺ کی ہجرت کے موقعہ آئی ہے جس کے ذریعے حضور اور مشرکین مکہ کے راستے ہمیشہ کے لیے جدا ہو رہے تھے اور آنے والے عہد میں مختلف تاریخیں تیار ہونے والی تھیں۔

فلا تکونن ظھیرا للکفرین (28: 84) ” پس آپ کافروں کے مددگار نہ بنیں “۔ کیونکہ مومن اور کافر کے درمیان کوئی تعاون اور باہم نصرت کا تعلق قائم نہیں ہوسکتا۔ دونوں کے راستے جدا ہیں ، دونوں کے نظام زندگی متضاد ہیں۔ مومن حزب اللہ ہیں اور کافر حزب الشیطان ہیں۔ اس لیے دونوں کے باہم تعاون کے لیے کوئی مشترکہ اساس ہی نہیں ہے۔ دونوں کے تعاون کے لئے وئی مشترکہ میدان نہیں ہے۔

ولا یصدنک عن ۔۔۔۔۔ انزلت الیک (28: 85) ” اور ایسا کبھی نہ ہونے پائے کہ اللہ کی آیات جب تم پر نازل ہوں تو کفار تمہیں ان سے باز رکھیں “۔ کفار کا ہمیشہ یہ مقصد رہا ہے کہ اہل دعوت کو کسی نہ کسی طریقے سے دعوت سے باز رکھیں اور مسلمانوں کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی دعوت کے راستے پر چلتے رہیں۔ اگرچہ رکاوٹیں ڈالنے والے رکاوٹیں ڈالیں۔ اور اس طرح چلتے رہیں کہ کوئی ان کو راہ دعوت سے روک نہ سکے۔ وہ قرآن اور سنت کی آیات کو لے کر اور ان پر بھروسہ کرکے اپنی راہ پر چل نکلیں۔

وادع الی ربک (28: 85) ” اپنے رب کی طرف دعوت دو “۔ یہ دعوت خالص اسلامی دعوت ہو ، بالکل واضح ہو اور اس کے اندر کوئی پیچیدگی اور کوئی التباس نہ ہو۔ یہ صرف اللہ کی طرف ہو ، کسی قومیت اور کسی عصبیت کی طرف نہ ہو۔ کسی زمین اور کسی جھنڈے کے لیے نہ ہو ، کسی مصلحت اور کسی مفاد کے لیے نہ ہو۔ کسی ذاتی خواہش اور کسی دنیاوی عیاشی کے لیے نہ ہو۔ اس دعوت کو کوئی قبول کرتا ہے یا نہیں کرتا ، اس کی کوئی پرواہ نہ کی جائے۔ اور کوئی اس کو قبول نہیں کرتا تو وہ اپنے لیے کوئی اور راہ لے ، ہمارا طریقہ اور راستہ تو یہی ہے۔

ولا تکونن من المشرکین (28: 85) ولا تدع مع اللہ الھا اخر (28: 88) ” اور ہرگز مشرکین میں شامل نہ ہو اور اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو معبود نہ پکارو “۔ ایک ہی اصول کو تاکیداً دو مرتبہ بیان کیا گیا یعنی شرک نہ کرو ، اور اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی نہ کرو ، اس طریقہ سے اسلامی نظریہ حیات نکھر کر سامنے آتا ہے۔ توحید اور شرک اسلامی عقیدہ کا بنیادی مسئلہ ہے۔ شرک کی نفی اور توحید کا اثبات بنیادی کلمہ ہے۔ اسی پر اسلامی نظریہ حیات قائم ہے۔ اسلام کے آداب ، اس کے فرائض ، اس کے اخلاقی ضابطے اور اس کے قانونی ضابطے سب اسی نظریہ پر قائم ہیں۔ ہر ہدایت اور ہر قانون نظریہ توحید پر قائم ہے۔ اس لیے ہر ہدایت اور ہر ضابطہ بندی سے قبل عقیدہ توحید کا ذکر ہوتا ہے۔ مزید تاکید ملاحظہ ہو۔

لا الہ الا ھو کل شئ ھالک الا وجھہ (28: 88) ” اس کے سوا کوئی معبود الٰہ نہیں ہے ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے سوائے اس کی ذات کے “۔ لہٰذا اسی کے آگے جھکنا ہے۔ اسی کی بندگی کرنا ہے ، اس کے سوا کسی کے پاس کوئی قوت نہیں ہے۔ اس کے سوا کسی کے پاس جائے پناہ اور جائے تحفظ نہیں ہے۔

کل شئ ھالک الا وجھہ (28: 88) ” ہر چیز ہلاک ہونے والئ ہے سوائے اس کی ذات کے “۔ ہر شے زائل ہونے والی ہے ، ہلاک ہونے والی ہے ، مال ہو یا جاہ ، اقتدار ہو یا قوت ، زندگی ہو یا سامان زندگی ، زمین ہو یا زمین کے باشندے۔ آسمان ہوں یا ان میں رہنے والی ہر چیز۔ اور یہ پوری کائنات جسے ہم جانتے ہوں یا جو ہمارے علم سے باہر ہو ، ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے ماسوائے ذات باری تعالیٰ کے۔ صرف ذات باری تعالیٰ اکیلی ہی باقی رہے گی۔

لہ الحکم (28: 88) ” فرمانروائی اسی کی ہے “۔ وہ جو فیصلے چاہتا ہے ، کرتا ہے ، جو احکام چاہتا ہے ، دیتا ہے۔ اس کے احکام اور بادشاہت میں اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہے۔ اس کے فیصلے کو کوئی رد نہیں کرسکتا۔ اس کے حکم کے بالمقابل کوئی حکم نہیں۔ اور وہ چاہے وہ ہوتا ہے اور اسکے سوا کوئی ایسی ذات نہیں ہے جس کی مشیت چلتی ہو۔

والیہ ترجعون (28: 88) ” اور اسی کی طرف تم کو پلٹنا ہے “۔ لہٰذا اس کے حکم سے کوئی جائے خلاصی و جائے پناہ نہیں ہے۔ اس کے مقابلے میں فرار کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس کے سوا کوئی ملجا و ماویٰ نہیں ہے۔

یوں اس سورت کا خاتمہ ہوتا ہے۔ قدرت الہیہ اس میں برملا کام کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ذات باری دعوت اور داعیوں کی محافظہ نظر آتی ہے۔ اور دعوت اسلامی کے مقابلے میں تمام قوتوں کو پاش پاش کرنے کے مناظر صاف نظر آتے ہیں۔ اور سورت کا اختتام دعوت اسلامی کی بنیاد یعنی عقیدہ توحید پر ہوتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی الہیہ و حاکم نہیں ہے۔ حکم اور فیصلہ اسی کا چلے گا اور اس دعوت کو لے کر اہل دعوت کو چاہئے کہ وہ یقین ، اعتماد اور یکسوئی کے ساتھ اپنی راہ پر گامزن رہیں۔

Maximize your Quran.com experience!
Start your tour now:

0%