undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

درس نمبر 179 تشریح آیات

85 ۔۔۔۔ تا ۔۔۔۔ 88

اب قصص ختم ہیں۔ ان قصص پر جو تبصرے تھے وہ بھی ختم ہوگئے۔ اب روئے سخن حضرت محمد ﷺ کی طرف پھرجاتا ہے۔ مکہ مکرمہ میں اس وقت مٹھی بھر اہل ایمان آپ کے ساتھ ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کو یہ خطاب ایسے حالات میں ہے کہ مکہ سے لوگ آپ کو نکالنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ آپ مدینہ کی طرف جانے والے ہیں اور اس میں بھی قوم آپ کا پیچھا کر رہی ہے۔ ابھی آپ مدینہ نہیں پہنچے۔ راستہ ہی میں ہیں۔ یہ آیات جحفہ میں اتریں جو مکہ کے قریب ہے۔ اس وقت ہجرت کرتے ہوئے آپ کی نظریں اور آپ کا دل اپنے محبوب شہر مکہ کے ساتھ لگا ہوا ہے۔ آپ ﷺ پر مکہ چھوڑنا نہایت ہی دشوار گزر رہا ہے۔ اگر دعوت اسلامی کا عظیم مقصد آپ کے پیش نظر نہ ہوتا تو آپ اپنے بچپن کے اس شہر کو ہرگز نہ چھوڑتے ، جس کے ساتھ آپ کی یادیں وابستہ ہیں۔

جہاں آپ کے آباؤ اجداد خوابیدہ ہیں اور جہاں آپ کے رشتہ دار رہتے ہیں۔ ایسے حالات میں رسول اللہ ﷺ کو خطاب ہوتا ہے

ان الذی فرض علیک القران لدآدک الی معاد۔ ”

اللہ آپ کو مشرکین کے حوالے کرنے والا نہیں ہے۔ جبکہ اللہ نے آپ ﷺ پر قرآن کی تبلیغ اور دعوت فرض کردی ہے۔ اللہ مشرکین مکہ کو یہ اختیار نہیں دیتا کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آپ ﷺ کو مکہ سے نکال دیں۔ آپ ﷺ پر اور آپ ﷺ کی دعوت کے حاملین پر تشدد اور ظلم کرتے رہیں ۔ اللہ نے جو آپ ﷺ کو قرآن کی دعوت کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ وہ ایک مقرر وقت پر آپ کو نصرت بھی کرنے والا ہے۔ لیکن اس کے لیے ایک وقت مقرر ہے۔ ٹھیک ہے آج ان لوگوں نے آپ کو نکال دیا ہے لیکن بہت جلدی آپ پھر واپس آنے والے ہیں۔

جن حالات میں حضور اکرم ﷺ ہجرت پر مجبور ہوئے تھے وہ بہت زیادہ کربناک تھے لیکن اللہ نے چاہا کہ ایسے حالات ہی میں آپ ﷺ کے ساتھ یہ پختہ عہد کردیا جائے کہ آپ ظفر مندی کے ساتھ پھر اس شہر کو لوٹیں گے تاکہ رسول اللہ ﷺ ہجرت کی مشکلات کو امن اور یقین کے ساتھ برداشت کریں۔ مطمئن ہوجائیں کہ جلدی آپ فاتح کی حیثیت سے لوٹنے والے ہیں۔ اور آپ ﷺ کو اچھی طرح یقین ہوگیا کہ جلد ہی یہ تحریک مکہ میں فاتحانہ داخل ہوگی۔ اللہ کا یہ وعدہ ان تمام لوگوں کے لیے قائم ہے جو بھی اس راہ پر چلنا چاہیں۔ جو شخص بھی اللہ کے لیے تشدد کا شکار ہو اور وہ اس پر صبر کرے اور یقین رکھے کہ اس ظلم اور تشدد کے بعد آخرکار اللہ کی مدد آئے گی تو اللہ نے آخر کار ایسے شخص کی مدد کی ہے۔ ایسا شخص آخر کار کامیاب ہوتا ہے اس معرکے سے سرخرو ہوکر نکلتا ہے۔ اس کا کاندھوں سے بوجھ اتر جاتا ہے اور وہ اپنے فرائض اچھی طرح ادا کرلیتا ہے۔

ان الذی فرض ۔۔۔۔ الی معاد (28: 84) ” یقین کرو جس نے تم پر قرآن فرض کیا ہے وہ تمہیں ایک بہترین جگہ (مکہ) واپس پہنچانے والا ہے “۔ اور اس سے قبل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مصر سے نکال دئیے گئے تھے اور ان کا تعاقب بھی ہوا تھا لیکن اللہ نے ان کو پھر مصر کی طرف لوٹا دیا۔ وہ واپس ہوئے اور انہوں نے اپنی قوم کے کمزور لوگوں کو فرعون کی غلامی سے نکالا اور فرعون اور اس کی فوج ہلاک ہوئی اور اچھا انجام ان لوگوں کا ہوا جنہوں نے ہدایت قبول کی تھی۔ لہٰذا آپ بھی جس راہ پر نکل پڑے ہیں ، چلتے رہیں اور آپ کی قوم اور آپ کے درمیان فیصلہ وہ کرے گا جس نے آپ کو اس ڈیوٹی پر مامور کیا ہے۔

قل ربی اعلم من جآء ۔۔۔۔۔ ضلل مبین (85) یعنی ہدایت و ضلالت کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دو ۔ وہ اہل ہدایت کو جزاء دے گا اور اہل ضلالت کو سزا دے گا۔ آپ ﷺ پر جو قرآن فرض کیا گیا ہے وہ آپ ﷺ پر اللہ کی طرف سے ایک رحمت اور مہربانی ہے۔ آپ کے تو خواب و خیال میں یہ بات نہ تھی کہ یہ امانت آپ ﷺ کے حوالے کی جائے گی۔ یہ ایک عظیم منصب ہے جو آپ کو دیا گیا اور اس منصب کے دئیے جانے سے قبل آپ ﷺ کے تصور میں بھی ایسی کوئی بات نہ تھی۔

Maximize your Quran.com experience!
Start your tour now:

0%