undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

واوحینا الی ام موسیٰ ۔۔۔۔۔۔ ولا تحزنی ” ہم نے موسیٰ کی ماں کو اشارہ کیا کہ ” اس کو دودھ پلا “ پھر جب تجھے اس کی جان کا خطرہ ہو تو اسے دریا میں ڈال دے اور کچھ خوف اور غم نہ کر “۔

کیا شان کبریائی ہے ، اللہ کی عظیم قدرت قابل دیدے ہے ! حکم ہوتا ہے ، موسیٰ کی ماں اسے دودھ پلاؤ، اسے پالتی رہو ، اپنی حفاظت میں رکھو۔ اور جب بھی تم خطرہ محسوس کرو ، اسے دریا میں ڈال دو ، بےخطر ہوکر اسے موجوں کے سپرد کر دو ، اگرچہ اس وقت وہ دودھ پی رہا ہو اور تمہاری آنکھوں کی ٹھنڈک ہو۔

ولا تخافی ولا تحزنی (28: 7) ” کچھ خوف اور غم نہ کر “۔ وہاں دریا میں یہ اللہ کی نگرانی میں ہوگا۔ ایسی قوت کی نگرانی میں کہ امن و سلامتی اسی کے جوار رحمت میں دستیاب ہے۔ اس کی قوت کی نگرانی میں کسی کے لیے کوئی ڈر رہتا ہی نہیں۔ یہ وہی ہاتھ ہے جو آگ کو گلزار بنا دیتا ہے۔ آگ کو ٹھنڈا اور سلامتی والا بنا دیتا ہے۔ جو سمندر کو جائے پناہ بنانے والا ہے جس کو یہ ہاتھ پناہ دے دے اس کو فرعون جیسا جابر بھی ہاتھ نہیں لگا سکتا بلکہ زمین کا کوئی جبار وقہار بھی ہاتھ نہیں لگا سکتا۔

انا رآدوہ الیک وجاعلوہ من المرسلین (7)

” ہم اسے تیرے ہی پاس لے آئیں گے اور اس کو پیغمبروں میں شامل کریں گے “۔ میں رب ذوالجلال تمہارے ساتھ وعدہ کرتا ہوں کہ وہ تمہارے ہاتھوں میں لوٹا دیا جائے گا ، اس کی زندگی کے لیے کوئی خطرہ نہ رہے گا اور مزید خوشخبری یہ ہے کہ وہ نبیوں میں سے ہوگا اور اللہ سے زیادہ سچا وعدہ کرنے والا اور کون ہو سکتا ہے۔

یہ اس قصے کا پہلا منظر ہے۔ ایک ماں ہے جو حیران و پریشان ہے۔ اسے خوف لاحق ہے کہ اس کے بچے کو قتل کردیا جائے گا۔ اس قتل کے تصور ہی سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اس لیے وہ اس تصور ہی سے بےتاب ہوجاتی ہے کہ اسے عالم بالا سے ہدایات ملتی ہیں ، اسے خوشخبری دے دی جاتی ہے۔ وہ مطمئن ہوجاتی ہے اور اسے سکون ملتا ہے۔ ڈرے اور سہمے ہوئے اس دل پر ایسا اثر ہوتا ہے جس طرح حضرت ابراہیم کے لیے آگ ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوگئی تھی۔ سیاق کلام میں اس کی تفصیلات نہیں ہیں کہ ام موسیٰ کو یہ ہدایت کس طرح ملیں اور کس طرح انہوں نے ان پر عمل کیا۔ پس پردہ گر جاتا ہے اور جب پر دہ اٹھتا ہے تو ہماری نظروں کے سامنے ایک دوسرا منظر ہے۔