undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

نتلوا علیک من نبا موسٰی وفرعون بالحق لقوم یومنون (3)

” “۔ یہ کتاب اب لوگوں کے لیے آرہی جو ایمان لانے والے ہوتے ہیں ، یہ ان کی تربیت کرتی ہے ، ان کو اٹھاتی ہے اور ان کے لیے منہاج حیات وضع کرتی ہے ۔ راستہ بتاتی ہے ۔ یہ قصص بھی ایسے ہی اہل ایمان کے لیے لائے جارہے ہیں اور ایسے ہی لوگ ان سے نفع اٹھاتے ہیں ۔

اس کتاب کی یہ تلاوت براہ راست اللہ کی طرف سے ہے ، یہ اللہ کی عنایات میں سے ایک عنایت ہے ۔ اور اہل ایمان کے لیے اس کا اہتمام کیا جارہا ہے ۔ یہ کتاب اہل ایمان کو بتاتی ہے کہ وہ نمایت ہی بلند مر تبہ اور قیمتی لوگ ہیں اور اللہ کے نزدیک وہ مرتبہ بلند رکھتے ہیں ۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول پر یہ کتاب ان کے لیے تلاوت کرتا ہے اور ان کے لیے یہ کتاب ان کی صفت ایمان کی وجہ سے تلاوت کی جارہی ہے ۔

لقوم یومنون (3:28 ) ” ایسے لوگوں کے فائدے کے لیے جو ایمان لائیں “۔

اس کے بعد اصل قصہ شروع ہوتا ہے ، یہاں قصے کا آغاز حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی زندگی کے آغاز یعنی آپ کی ولادت سے ہوتا ہے ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ کئی سورتوں میں آیا ہے لیکن آپ کی ولادت کے واقعات کا بیان صرف اس سورت میں اس انداز سے ہے کیونکہ آپ کی سیرت کا پہلا دور یعنی آپ کی ولادت اور وہ حالات جن میں ولادت ہوئی بےبسی کا دور تھا ولادت ہوتے ہی آپ بےبس تھے ۔ آپ کی قوم بھی بےبس تھی ۔ فرعون کی غلامی میں یہ لوگ بندھے ہوئے تھے ، ذلیلوخوار تھے اور یہی ذلت ومسکنت یہاں اس سورت کا حقیقی موضوع ہے ۔ ایسے مشکل حالات میں صاف صاف نظر آیا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بچانے کے لیے دست قدرت واضح طور پر سرگرم ہے ۔ جو تدابیر اختیار کی گئیں وہ بالکل ظاہر ہیں ۔ ایسے حالات میں جبکہ ظلم زیادتی اور سرکشی کے خلاف تمام انسانی قوتیں عاجزآگئی ہیں۔ دست قدرت اس عظیم قوت پر ایسی ضرب لگاتی ہے جس کی کوئی آواز نہیں ہے۔ اس طرح مستضعفین کی نصرت کا آغاز ایسے حالات میں ہوتا ہے کہ ان کے پاس حالات کو بدلنے کا کوئی چارہ ہی نہیں رہتا۔ قوم بنی وسرائیل کو سخت ترین عذاب اور ظلم اور تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا تھا اور ان کے پاس بچاؤ کی کوئی ظاہری سبیل نہیں ہے۔ کچھ ایسی ہی صورت حال تھی جس سے مکہ میں مٹھی بھر ایمان والے دوچار تھے۔ مکہ کے اہل ایمان کو بھی اس طرح دست قدرت کی غیبی امداد کی ضرورت تھی اور مکہ میں تشدد کرنے والوں کو ضرورت تھی کہ ان کو متنبہ کیا جائے کہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے اور یقیناً ہوتا ہے۔

دوسری سورتوں میں اکثر اوقات حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قصے کا آغاز رسالت کے سپرد کیے جانے کے واقعات سے ہوتا ہے۔ کسی جگہ اس قصے کا آغاز ولادت موسیٰ کے واقعات سے نہیں ہوا۔ دوسرے مقامات پر جب ہم دیکھتے ہیں تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ایک قوی مومن کی طرح ایک سرکش مقتدر اعلیٰ کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہیں اور یہ قوت ایمان غالب آتی ہے اور ظلم اور سرکشی سرنگوں ہوتی ہے لیکن یہاں یہ مفہوم بتانا مقصود نہیں ہے۔ یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ شر جب ننگا ہوکر اپنے عروج تک جا پہنچتا ہے تو اس کے اس عروج کے اندر سے اس کی خرابی کا سامان نمودار ہوتا ہے۔ شر اور ظلم جب کھل کر سامنے آجاتے ہیں تو پھر ان کی شکست و ریخت کا سامان قدرتی طور پر فراہم ہوتا ہے۔ کسی بیرونی دفاع کی ضرورت نہیں رہتی۔ شر کے خاتمے کے قدرتی عوامل شروع ہوجاتے ہیں ، اور دست قدرت خود اس کا دفعیہ کرتا ہے اور مظلوم اور پسے ہوئے طبقات کو ظلم کی چکی سے نجات دے دی جاتی ہے۔ پھر کیا ہوتا ہے ، خیر پھلتا اور پھولتا ہے۔ اس کی تربیت ہوتی ہے اور اہل خیروقت کے امام بن جاتے ہیں اور تمام اقتدار ان کے ہاتھ میں آجاتا ہے اور وہ اس کے وارث ہوجاتے ہیں۔

یہی وہ حکمت ہے جس کے لیے سورة قصص میں قصہ موسیٰ کو لایا گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہاں اس قصے کی وہ کڑی لی گئی ہے جو پوری طرح اس مفہوم کو ظاہر کرتی ہے۔ قرآن کریم میں قصص جہاں جہاں بھی لائے گئے ہیں ، ہر جگہ ان سے ایک مخصوص غرض سامنے آتی ہے۔ لوگوں کی ، ایک زاویہ سے ، تربیت مقصود ہوتی ہے اور کچھ معانی ، کچھ حکمتیں اور کچھ اصول ان کو بنانے مقصود ہوتے ہیں۔ چناچہ جس مقصد کے لیے قصہ لایا جاتا ہے ، وہ نہایت ہی ہم آہنگی کے ساتھ اور مربوط طریقے سے ذہنوں میں بٹھا دیا جاتا ہے۔ حقائق پر ودئیے جاتے ہیں اور قلب و نظر کی تعمیر صحیح خطوط پر ہوتی ہے۔

یہاں اس قصے کی جو کڑیاں لائی گئی ہیں ، مثلاً ولادت موسیٰ (علیہ السلام) ، وہ سخت حالات جن میں آپ کی ولادت ہوئی ، ان حالات میں جس معجزانہ انداز میں اللہ نے آپ کو بچانے کی تدابیر کیں ، پھر آپ کی پرورش کا معجزانہ انتظام اور آپ کو جوانی ، علم اور حکمت کا عطا ہونا ، قبطی کا قتل ہونا ، فرعون اور اس کے سرداروں کا آپ کے خلاف مشورت کرنا ، حضرت موسیٰ کا مصر سے مدین کی طرف بھاگنا ، وہاں شادی کرنا ، خدمت گزاری کی مدت پوری کرنا ، پھر طور پر آپ کا ندائے ربی سنتا اور منصب رسالت پانا ، پھر آپ کا فرعون اور اس کے سرداروں کے سامنے فریضہ تبلیغ رسالت پورا کرنا۔ ان کی جانب سے تکذیب ، حضرت ہارون کو بحیثیت معاون نبی متعین کرنا اور آخری انجام کہ فروعون کی غرقابی۔ یہ سب امور نہایت ہی تیزی کے ساتھ سین پر آتے ہیں۔

یہاں قصے کی دو کڑیوں کو قدرے تفصیل سے پیش کیا گیا ہے ۔ اس لیے کہ ان کو قرآن کریم میں پہلی بار لایا گیا ہے۔ اور ان دونوں کے ذریعے یہ بتانا بھی مقصود ہے کہ اللہ کس طرح کھل کر ظلم کے خلاف اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے ، فرعون کی تمام قوتیں اور مکاریاں فیل ہوجاتی ہیں۔ تمام احتیاطی تدابیر بےاثر ہوجاتی ہیں اور اللہ کے فیصلے نافذ ہو کر رہتے ہیں۔