You are reading a tafsir for the group of verses 28:15 to 28:17
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

پیغمبری ملنے سے پہلے کا واقعہ ہے، حضرت موسیٰ مصر کے دار السلطنت میں تھے۔ ایک روز انھوںنے دیکھا کہ ایک قبطی اور ایک اسرائیلی لڑ رہے ہیں۔ اسرائیلی نے حضرت موسیٰ کو اپنا ہم قوم سمجھ کر پکارا کہ ظالم قبطی کے مقابلہ میں میری مدد کیجيے۔ حضرت موسیٰ نے دونوں کو الگ کرنا چاہا تو قبطی آپ سے الجھ گیا۔ آپ نے دفاع کے طورپر اس کو ایک گھونسا مارا۔ وہ اتفاقاً ایسی جگہ لگا کہ قبطی مر گیا۔

قبطی قوم اس وقت بنی اسرائیل پر سخت زیادتیاں کررہی تھیں۔ ایسی حالت میں حضرت موسیٰ اگر اس واقعہ کو قومی نقطۂ نظر سے دیکھتے تو وہ اس کو مجاہدانہ کارنامہ قرار دے کر فخر کرتے۔ مگر انھیں قبطی کی موت پر شدید افسوس ہوا۔ وہ فوراً اللہ کی طرف متوجہ ہوئے اور اللہ سے معافی مانگنے لگے۔

’’اب میں کسی مجرم کی حمایت نہیں کروں گا‘‘— اس کا مطلب یہ ہے کہ اب میں بلا تحقیق کسی کی حمایت نہیں کروں گا۔ ایک شخص کا بظاہر مظلوم فرقہ سے تعلق رکھنا یا کسی کو ظالم بتا کر اس کے خلاف مدد مانگنا یہ ثابت کرنے کے ليے کافی نہیں کہ فی الواقع بھی دوسرا شخص ظالم ہے، اور فریاد کرنے والا مظلوم۔ اس ليے صحیح طریقہ یہ ہے کہ ایسے مواقع پر اصل معاملہ کی تحقیق کی جائے اور صرف اس وقت کسی کی حمایت کی جائے جب کہ غیر جانب دارانہ تحقیق میں اس کا مظلوم ہونا ثابت ہوجائے۔