You are reading a tafsir for the group of verses 28:15 to 28:17
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

ودخل المدینہ علی حین ۔۔۔۔۔۔۔۔ ظھیرا للمجرمین (15- 17)

” وہ شہر میں داخل ہوا “ اور شہر سے مراد دار الخلافہ ہے ، جس طرح کہ اس وقت وہ تھا۔ سوال یہ ہے کہ وہ کہاں سے آئے اور شہر میں داخل ہوئے۔ کیا یہ عین الشمس کے قصر شاہی سے نکل کر آئے یا یہ کہ انہوں نے شاہی محل اور دارالحکومت کو چھوڑ دیا تھا اور کسی اور جگہ رہائش اختیار کرلی تھی اور وہ شہر میں اس وقت داخل ہوئے جب لوگ غافل تھے یعنی دوپہر کا وقت تھا یا لوگوں کے آرام کا وقت تھا۔ جب وہ شہر میں داخل ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں۔

فوجد فیھا رجلین ۔۔۔۔۔۔۔ من عدوہ (28: 15) ” وہاں اس نے دیکھا کہ دو آدمی لڑ رہے ہیں۔ ایک اس کی اپنی قوم کا تھا اور دوسرا اس کی دشمن قوم سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کی قوم کے آدمی نے دشمن قوم والے کے خلاف اسے مدد کے لیے پکارا “۔ ان میں سے ایک قطبی تھا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ فرعونی کے مصاحین میں سے تھا ، بعض روایات میں آتا ہے کہ یہ شاہی محل کا باروچی تھا اور دوسرا اسرائیلی تھا۔ یہ دونوں آپس میں لڑ رہے تھے۔ تو بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو مدد کے لیے پکارا کیونکہ قبطی دونوں کا دشمن تھا۔ یہ کیسے ہوا ؟ یہ کس طرح ممکن ہوا کہ ایک عام اسرائیلی فرعون کے پروردہ شخص کو خوف فرعون کے ملازم یا اس کی قوم کے آدمی کے خلاف پکار رہا ہے۔ اگر موسیٰ (علیہ السلام) کو بدستور شاہی محل میں فرض کرلیا جائے تو وہ ممکن نہیں ہے کہ فرعون کے متنبی کو ایک دوسرے فرعونی کے خلاف پکارا جائے۔ یہ تب ہی ہوسکتا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں یہ فرض کیا جائے کہ انہوں نے شاہی محل کو ترک کردیا ہے اور فرعون سے ان کے رابطے ختم ہیں۔ بنی اسرائیل میں یہ بات پھیل گئی ہے کہ حضرت موسیٰ بنی اسرائیل سے ہیں اور یہ کہ وہ بادشاہ اور اس کے حاشیہ نشینوں کے خلاف ہیں اور اب وہ اپنی پسی ہوئی قوم کی حقوق کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) جیسا مقام و مرتبہ رکھنے والے شخص کے لیے یہی مناسب ہے کہ وہ قصر شاہی سے نکل گئے ہوں کیونکہ آپ کا پاک نفس شروفساد کے اس گندے نالے میں کس طرح رہ سکتا تھا۔

فوکزہ موسیٰ فقضی علیہ (28: 15) ” موسیٰ نے اس کو ایک گھونسا مارا اور اس کا کام تمام کردیا “۔ وکز اس ضرب کو کہتے ہیں جو انسان پورے ہاتھ کے ساتھ دوسرے کو لگائے۔ انداز بیان سے یوں ظاہر ہوتا ہے کہ ایک ہی گھونسے کے ساتھ قبطی ڈھیر ہوگیا۔ اور اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ کس قدر مضبوط اور قوی جوان تھے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ منفعل المزاج تھے اور سخت غصے والے تھے اور اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے دل میں فرعونیوں اور فرعون کے خلاف سخت نفرت تھی۔

لیکن قرآن کریم کی عبارت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ اس قبطی کو قتل کرنا نہ چاہتے تھے۔ یہ نہ چاہتے تھے کہ اسکی جان لے لی جائے ، جو نہی آپ نے دیکھا کہ وہ تو آپ کے سامنے ٹھنڈا پڑا ہے ، آپ پشیمان ہوگئے کہ آپ نے یہ غلط کام کر ڈالا۔ آپ نے اسے شیطانی کام کہا ، کیونکہ یہ غصے کی وجہ سے کام ہوا اور غصہ شیطانی عمل ہوتا ہے یا یہ شیطان کی اکساہٹ کی وجہ سے ہوتا ہے۔

قال ھذا ۔۔۔۔۔ مضل مبین (28: 15) ” موسیٰ نے کہا یہ شیطان کی کار فرمائی ہے وہ سخت دشمن اور کھلا گمراہ کن ہے “۔ حضرت موسیٰ مزید کہتے ہیں کہ غصے کی وجہ سے انہوں نے اس فعل کا ارتکاب کیا۔ وہ اعتراف کرتے ہیں کہ انہوں نے اس لغزش کا ارتکاب کرکے اپنے اوپر ظلم کیا۔ چناچہ آپ رب تعالیٰ سے طلب مغفرت کرتے ہیں۔

قال رب انی ۔۔۔۔۔۔ الغفور الرحیم ” پھر وہ کہنے لگا اے میرے رب ، میں نے اپنے نفس پر ظلم کر ڈالا ، میری مغفرت فرما دے۔ چناچہ اللہ نے اس کی مغفرت فرما دی ، وہ غفور و رحیم ہے “۔ اللہ نے آپ کی عاجزانہ دعا کو قبول کرلیا۔ کیونکہ آپ کو غلطی کا احساس ہوگیا اور فوراً استغفار کرلیا۔ اور موسیٰ (علیہ السلام) اپنے کانپتے ہوئے دل اور اپنے تیز احساس اور اپنی توجہ الی اللہ سے محسوس کرلیا کہ ان کے رب نے ان کو بخش دیا ہے۔ قلب مومن کو جب اللہ کا قرب نصیب ہوتا ہے تو وہ محسوس کرلیتا ہے اور جب دعا قبول ہوتی ہے تو بھی اسے احساس ہوجاتا ہے کہ دعا قبول ہوگئی ، انسان اپنے تقویٰ خدا خوفی اور اپنے احساس کی وجہ سے اس مقام تک پہنچ جاتا ہے۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) اپنے تیز شعور ، اپنی طہارت اور اتصال باللہ کے ذریعہ یہ محسوس کرلیتے ہیں کہ رب تعالیٰ نے انہیں معاف کردیا ہے تو آپ فوراً اپنے اوپر لازم کرتے ہیں کہ رب ، آپ نے مجھ پر جو انعامات کیے ہیں آئندہ ان کا شکر ادا کروں گا کہ مجرموں کے مددگار نہ بنوں گا۔

قال رب بما ۔۔۔۔۔۔ ظھیرا للمجرمین (28: 17) ” اے میرے رب ، یہ احسان جو تو نے مجھ پر کیا ہے اس کے بعد میں کبھی مجرموں کا مددگار نہ بنوں گا “۔

حضرت موسیٰ کی طرف سے یہ عام عہد ہے کہ وہ مجرموں کا معین و مددگار نہ بنیں گے یعنی آپ نے جرم اور مجرمین سے اپنی برات کا اظہار کیا ، ہر حال اور ہر صورت میں۔ اگرچہ بعض اوقات ان کا طبعی غصہ انہیں اس بات پر مجبور کر دے۔ بعض اوقات ظلم اور تشدد کے نتیجے میں ایک معتدل مزاج میں بھی تلخی پیدا ہوجاتی ہے۔

آپ یہ عہد اس لیے کر رہے ہیں کہ اللہ نے آپ کی دعا قبول فرمائی۔ پھر اللہ کے ان انعامات کے بدلے بطور شکر انہوں نے یہ عہد کیا کہ اللہ نے ان کو جسمانی قوت اور علم و حکمت سے نوازا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اندر نیکی اور صراط مستقیم پر چلنے کا ایہ ارتعاش اور اس سے قبل اپنی قوم کے حق میں مشتعل ہونے اور انتقام لینے کا ارتعاش یہ بتاتا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی شخصیت میں کس قدر سیمابیت تھی۔ آپ کا وجدان تیز ، انتقام سخت تھا اور دوسرے مقامات پر آپ کی شخصیت کا یہ پہلو بار بار ظہور پذیر رہتا ہے۔ بلکہ اگلے ہی منظر میں دیکھئے کہ آپ پھر اپنی قوم کے شخص پر غصہ ہوتے ہیں۔