undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

” بلوغ اشد “ کے معنی ہیں جب آپ کی جسمانی قوتیں مکمل ہوگئیں اور استواء کا مفہوم ہے جسمانی اور عقلی اعتبار سے پختگی تک پہنچنا۔ یہ درجہ بالعموم تیس سال کی عمر میں حاصل ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس عرصے تک حضرت موسیٰ کیا فرعون کے قصر شاہی ہی میں رہے ؟ اور فرعون اور اس کی بیوی کے لے پالک اور محبنی رہے یا یہ ان سے علیحدہ ہوگئے اور انہوں نے قصر شاہی کو چھوڑ دیا۔ اس لیے کہ شاہی محلات کے گندے اور سڑے ہوئے ماحول میں کسی ایسے شخص کا رہنا ممکن ہی نہیں جس کی روح پاک و صاف ہو اور جس سے مستقبل میں نبوت کا کام لیا جانا ہے۔ خصوصاً جبکہ ان کی ماں نے ان کو یہ بات بتا دی ہوگی کہ ان کی شناخت کیا ہے۔ ان کی قوم کیا ہے اور ان کا دین کیا ہے اور اس کے بعد جب وہ دیکھ رہے ہوں گے کہ ان کی قوم پر کسی قدر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں ، ان کو کس قدر ذلیل و خوار کر کے رکھا جا رہا ہے اور معاشرے کے اندر ایک ہمہ گیر فساد برپا ہے اور ہر طرف ظلم و تشدد کا دور دورہ ہے۔

لیکن ہمارے پاس ان کی اس زندگی کے بارے میں کوئی مستند ذریعہ علم نہیں ہے۔ البتہ بعد میں آنے والے واقعات کی بنیاد پر انسان ان کی اس زندگی کے بارے میں قیاس کرسکتا ہے۔ بعد میں اس پر تبصرہ کریں گے۔ یہاں اس پر غور کرنا ہے کہ علم و حکمت عطا کرنے کے بعد اللہ نے اس پر یہ تبصرہ کیا ہے۔

وکذلک نجزی المحسنین (28: 14) ” ہم نیک لوگوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں “۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ

انہوں نے پاکیزگی اور احسان کی زندگی اپنا لی تھی اور یہ علم و حکمت جزائے احسان تھا۔