واصبح فؤاد ام موسیٰ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وھم لا یشعرون (10- 11)
اس نے عالم بالا کی طرف سے اشارہ پایا اور اپنے بچے کو دریا کی موجوں کے نذر کردیا۔ لیکن اب وہ کہاں جا رہا ہے اس کا کیا انجام ہونے والا ہے ؟ وہ دل میں سوچتی رہی۔ کس طرح اس کے لئے ممکن ہوا کہ وہ اپنے جگر گوشے کو دریا کی موجوں کے حوالے کر دے۔ کس طرح اس سے یہ ہوسکا جبکہ اس سے قبل کوئی ماں ایسا نہ کرسکی تھی۔ اس حالت خوف میں کیا یہی سلامتی کا راستہ تھا ؟ کیونکہ یہ ممکن ہوا کہ اس نے آواز غیب پر اس طرح لبیک کہہ دیا ؟
قرآن کریم اس بیچاری کی دلی کیفیات کی تصویر کشی عجیب انداز میں کرتا ہے۔ یہ دل خالی اور فارغ ہے ۔ نہ اس میں عقل ہے ، نہ اسے کچھ سمجھ میں آرہا ہے ، نہ کوئی سوچ ہے اور نہ کوئی تدبیر ہے۔
ان کا در لتبدی بہ (28: 10) ” قریب تھا کہ وہ راز فاش کر بیٹھتی “۔ اور وہ مجنونہ کی طرح چیخ اٹھتی کہ میں نے اسے رکھا ہے ، میں نے اسے رکھا ہے ، تمام لوگوں کو خبر ہوجاتی اور قریب تھا کہ وہ پکار اٹھتی کہ میں نے اسے دریا برد کیا ہے اور ایک غیبی آواز پر میں نے ایسا کیا ہے۔
لولا ان ربطنا علی قلبھا (28: 10) ” اگر ہم اس کی ڈھارس نہ بندھا دیتے “۔ اس کے دل کو سخت نہ کردیتے ،
اس کے اندر قوت برداشت نہ پیدا کردیتے۔ اور اسے چیخ و پکار اور آہ و فغان سے روک نہ دیتے تو وہ اس راز کو فاش کردیتی۔
لتکون من المومنین (28: 10) ” تاکہ وہ ایمان لانے والوں میں سے ہو “۔ اسے اللہ کے وعدے کا پورا یقین ہوجائے ، اور اللہ کی راہ میں ابتلا پر صبر کرنے اور اس پر جمے رہنے کا مقام مل جائے ، اور وہ ہدایت پر چلنے والی بن جائے۔
لیکن ام موسیٰ پھر بھی بقاضائے فطرت انسانی تجسس سے نہ رکی۔ اپنی سی کوشش اس نے کی۔
وقالت فاختہ قصیہ (28: 11) ” اس نے بچے کی بہن سے کہا اس کے پیچھے پیچھے جاؤ “۔ ذرا دیکھتی جاؤ کہ کیا ہوتا ہے۔ دیکھو کہ یہ زندہ رہتا ہے ؟ اگر رہتا ہے تو کیونکر رہتا ہے۔ اسے مچھلیاں کھا جاتی ہیں یا خشی کے درندے کھا جاتے ہیں۔ کہاں ڈوبتا ہے اور کہاں رکتا ہے ؟
بہن نے نہایت ہی خفیہ انداز میں نہایت ہی احتیاط کے ساتھ اس کا پیچھا کیا۔ راستوں اور بازاروں میں اس کی خبریں تلاش کرتی رہی۔ آخر کار اس کو معلوم ہوگیا کہ دست قدرت نے اسے کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ اس نے دور سے دیکھ لیا کہ فرعون کے نوکروں نے اسے دریا سے پکڑ لیا ہے۔ بچہ دودھ نہیں پی رہا ہے اور نوکر اس کے لیے دودھ پلانے والی کی تلاش میں ہیں