You are reading a tafsir for the group of verses 27:91 to 27:93
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

اب سورت کے آخر میں آخری ضربات ہیں۔ یہاں یہاں رسول اللہ ﷺ کو کہا جاتا ہے کہ آپ اپنی دعوت کا خلاصہ بیان کریں۔ اپنے منہاج کار کی وضاحت کردیں۔ طریقہ دعوت بتا دیں اور تبلیغ کردینے اور خدا کا پیغام پہنچا دینے کے بعد اب ان کو اس انجام کے حوالے کردیں۔ جو اللہ نے ان لوگوں کے لیے پسند فرمایا ہے اس لیے کہ انہوں نے خود اپنے لیے اسے چنا ہے۔ اور بات کا خاتمہ بھی اسی حمد و ثنا پر ہوتا ہے جس کے ساتھ آغاز ہوا تھا۔

انما امرت ان اعبد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وما ربک بغافل عما تعملون (27: 91- 93)

” “۔

اہل عرب مکہ مکرمہ کو بیت الحرام اور حرم کو قابل احترام سمجھتے تھے اور مکہ مکرمہ اور حرم شریف کے اس احترام پر ان کی قیادت و سیادت قائم تھی لیکن اس کے باوجود وہ اس اللہ کو وحدہ لاشریک نہ سمجھتے تھے جس نے اس شہر اور کعبہ کو احترام دے کر ان کو عزت بخشی تھی۔ چناچہ رسول اللہ ﷺ یہاں ان کے نظریہ کو اس طرح درست فرماتے ہیں جس طرح نظریہ کو درست کرنا چاہئے۔ وہ اعلان فرماتے ہیں کہ لوگو مجھے سب سے پہلے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں اس شہر کے رب کی بندگی کروں جس نے اس شہر کو محترم بنایا ہے۔ اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہے۔ اللہ کی الوہیت کا پورا تصور یہاں یہ دیا جاتا ہے کہ وہ اس شہر کا مالک ہے اور اس شہر کے علاوہ بھی ہر چیز اس کی ملکیت ہے۔ اعلان کیا جاتا ہے کہ مجھے سب سے پہلے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں بھی سرتسلیم خم کردینے والا بندہ ، مسلم بن جاؤں۔ اس طرح کہ اس تسلیم و رضا میں اللہ کے ساتھ کوئی شریک نہ ہو۔ ایسا ہی مسلم وہ گروہ ہے جس پر پوری انسانی تاریخ میں دعوت اسلامی کا مدار رہا ہے۔ جو پورے موحد اور پوری طرح سر تسلیم خم کرنے والے رہے ہیں۔ یہ تو تھے دعوت اسلامی کے بنیادی عناصر۔ رہا اس دعوت کا وسیلہ اور اس کا ذریعہ تو وہ تلاوت قرآن ہے۔

وان اتلو القران (27: 92) ” اور یہ کہ قرآن پڑھ کر سناؤں “۔ قرآن دراصل دعوت اسلامی کی کتاب اول بنے۔ یہ ہمارا دستور ہے اور ہماری کامیابی اور فلاح کا وسیلہ ہے۔ نبی ﷺ کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ اس قرآن کے ذریعے جہاد فرمائیں بمقابلہ کفار۔ انسانی عقل اور انسانی روح کی تربیت کے لیے اس کے اندر بہت کچھ ہے۔ یہ نفس انسانی کے ہر پہلو کو لیتا ہے۔ یہ انسانی شعور کے تمام طریقوں کو آزماتا ہے۔ اس کے اندر ایسی قوت ہے کہ وہ خشک دلوں کے اندر زلزلہ پیدا کردیتا ہے۔ وہ انسان کے دل و دماغ کو اس قدر جھنجھوڑتا ہے کہ انہیں بےقرار کردیتا ہے۔ دعوت اسلامی کے لیے تو قرآن کافی و شافی ہے۔ اس کے ساتھ جہاد و قتال کو تو محض اس لیے فرض کیا گیا ہے کہ اہل ایمان کو فتنوں اور دشمنوں کے شر سے بچایا جاسکے۔ اور پوری دنیا میں قرآن کی دعوت کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ اور جہاد کو دوسرا مقصد ایسی قوت کا حصول ہے جس کے ذریعے شریعت نے قانون کو نافذ کیا جاسکے۔ رہی دعوت اسلامی تو اس کا ذریعہ اور وسیلہ صرف کتاب اللہ ہے۔ وان اتلو۔۔۔۔۔ (27: 92) ” مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں قرآن کریم کی تلاوت کروں “۔

فمن اھتدی فانما یھتدی ۔۔۔۔۔۔۔ من المنذرین (27: 92) ” اب جو ہدایت اختیار کرے گا ، وہ اپنے بھلے کے لیے ہدایت اختیار کرے گا اور جو گمراہ ہو اس سے کہہ دو کہ میں بس خبردار کردینے والا ہوں “۔ اس آیت میں انفرادی ذمہ داری کا اصول بیان کیا گیا ہے۔ یعنی ہدایت و ضلالت کی راہ اپنانے میں ہر شخص خود ذمہ دار ہے۔ اس انفرادی ذمہ داری کے اصول کے اندر یہ اصول کار فرما ہے کہ اللہ کے نزدیک انسان بہت ہی محترم ہے۔ اور اسلام احترام آدمیت کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ اسلام انسانوں کو حیوانوں کی طرح ہانک کر اسلام کے دائرے میں جبراً داخل نہیں کرتا ۔ اسلام دعوت اسلامی کو قرآن کی شکل میں انسانوں کے سامنے پیش کرتا ہے۔ ان کو غوروفکر کی دعوت دیتا ہے۔ یہ دعوت لوگوں کے دلوں پر اثر کرتی ہے۔ یہ ہے اسلام کا گہرا ، عمدہ اور عمیق طریق کار۔ یہ انسانی فطرت کو اس کی گہرائیوں سے لیتا ہے جس طرح قرآن نے انسانی نفوس کی تربیت کے لیے نہایت ہی فطری منہاج اپنایا ہے۔

وقل الحمدللہ (27: 93) ” ان سے کہو تعریف اللہ ہی کے لیے ہے “۔ اللہ کے کمالات اور کاری گریوں سے پہلے اللہ کی تعریف۔

سیریکم ایتہ فتعرفونھا (27: 93) ” عنقریب وہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھا دے گا اور تم انہیں پہچان لوگے “۔ اللہ نے بالکل سچ کہا ، اللہ کے بندے ہر دن انفس و آفاق میں اللہ کی آیات و نشانات کو دیکھتے ہیں اور اللہ نے اس کائنات میں جو اسرار و رموز ودیعت کیے ہیں ، آئے دن ان کے بارے میں انکشافات ہوتے رہے ہیں۔

وما ربک بغافل عما تعلمون (27: 93) ” اور تیرا رب بیخبر نہیں ہے ان اعمال سے جو تم لوگ کرتے ہو “۔ یہ وہ آخری ضرب ہے جو انسانی عقل و خرو کی تاروں پر اس سورت کے آخر میں لگائی جاتی ہے۔ نہایت ہی میٹھے ، خوبصورت اشاراتی اور پھر نہایت ہی دو ٹوک اور خوفناک انداز بیان میں۔ اس کے بعد لوگوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے کہ اب وہ جو چاہیں کریں لیکن ان کو اس تنبیہہ کے ساتھ آزاد چھوڑا جاتا ہے۔

وما ربک بغافل عما تعلمون (27: 93) ” اور تیرا رب بیخبر نہیں ہے ان اعمال سے جو تم لوگ کرتے ہو “۔