اس شہر (مکہ) کا حوالہ قرآن کے مخاطب اول کی رعایت سے ہے۔ تاہم یہ ایک اسلوب کلام کی بات ہے۔ آیت کا اصل مدعا انسان کو اس ابدی حقیقت کی طرف متوجہ کرنا ہے کہ اُس کے ليے ایک ہی صحیح رویہ ہے۔ اور وہ یہ کہ وہ ایک خدا کا عبادت گزار بنے۔
داعی کا کام ’’سنانا‘‘ ہے، یعنی امر حق کا اعلان۔ آدمی کو داعی کی لفظی پکار میں معنوی حقیقت کا ادراک کرنا ہے۔ بے زور دعوت میں خدائی طاقت کا جلوہ دیکھنا ہے۔ جو لوگ اس صلاحیت کا ثبوت دیں وہی وہ لوگ ہیں جو خدا کے ابدی انعامات کے مستحق قرار دئے جائیں گے۔
’’خدا اپنی نشانیاں دکھائے گا‘‘— اس پیشین گوئی کا ایک پہلو قرآن کے مخاطب اول (قریش مکہ) سے تعلق رکھتا ہے جن کو دور اول میں جنگ بدر اور فتح مکہ کی صورت میں خدا کی نشانیاں دکھائی گئیں۔ اس کا دوسرا پہلو وہ ہے جس کا تعلق قرآن کی ابدیت سے ہے۔ اس دوسرے اعتبار سے موجودہ زمانہ میں ظاہر ہونے والی سائنسی نشانیاں بھی اس غیر معمولی پیشین گوئی کے وسیع تر مصداق میں شامل ہیں۔