You are reading a tafsir for the group of verses 27:82 to 27:90
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

اب علامات قیامت کے موضوع پر اور قیامت کے بعض مناظر کی طرف بات نکلتی ہے۔ اور اس کے بعد اس سورت پر آخری تبصرہ ہوگا۔ ایک ایسا دابۃ الارض جو ان لوگوں کے ساتھ ہمکلام ہوگا ، جو اللہ کی تکوینی آیات کو نہیں مانتے۔ اس کے بعد حشر و نشر کا منظر جہاں یہ تکذیب کرنے والے اور جدل وجدال کرنے والے نہایت ہی خاموشی کے ساتھ چپ چاپ کھڑے ہوں گے۔ پھر یہاں دنیا کی آیات و نشانات مثلا ً گردش لیل و نہار کے مناظر کی طرف بھی انسان کو متوجہ کیا جاتا ہے کہ آیا ان سے بڑا معجزہ بھی کوئی ہو سکتا ہے۔ لیکن لوگ ان سے غافل ہیں۔ پھر یہ بتایا جاتا ہے کہ جب صور پھونکا جائے گا تو یہ لوگ عظیم جزع و فزع میں مبتلا ہوں گے اور چیخ و پکار کریں گے مگر بےفائدہ ۔ جب پہاڑ چل پڑیں گے اور یہ فضائے کائنات میں بادلوں کی طرف اڑ رہے ہوں گے پھر بتایا جاتا ہے کہ کچھ لوگ اس جزع و فزع اور خوف و ہراس سے متاثر نہ ہوں گے اور بالکل مطمئن کھڑے ہوں گے اور کچھ دوسرے نہایت ہی دہشت زدہ سرنگوں ہوں گے۔ اور اسی حالت میں جہنم کے اندر گرا دئیے جائیں گے۔

واذا وقع القول علیھم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ھل تجزون الا ما کنتم تعملون (82- 90)

” ، ۔ “۔۔۔۔ ، “۔ زمین سے جانور نکالنے کا ذکر بعض احادیث میں آتا ہے۔ لیکن ان صحیح روایات میں اس جانور کی تفصیلات وصفات نہیں ہیں۔ جن روایات میں اس جانور کی کچھ صفات بیان ہوئی ہیں۔ وہ حد صحت تک پہنچی ہوئی نہیں ہیں ، لہٰذا ہم یہاں ان صفات سے صرف نظر کرتے ہیں۔ اس لیے کہ کسی جانور کا طول اگر سات گز ہو یا اس کا روئیں والا ہونا ، یا داڑھی والا ہونا ، یا اس کا سر بیل جیسا ہونا ، یا اس کی آنکھیں خنزیر جیسی ہونا ، یا اس کے کان ہاتھی جیسے ہونا یا اس کے سینگ بارہ سنگے یا اس کی گردن آہو کی طرح ہونا اور اس کا سینہ شیر کی طرح ہونا اور اس کا رنگ چیتے کی طرح ہونا اور اس کے دونوں پہلو بلی کی طرح ہونا اور اس کی دم دنبے کی طرح ہونا ، اس کے پاؤں اونٹ کی طرح ہونا اور پروں اور کھروں والا ہونا کوئی ایم بات نہیں ہے۔ یہ وہ اوصاف ہیں جن میں مفسرین پریشان ہوئے۔

بس ہمیں چاہئے کہ قرآنی نص اور صحیح احادیث پر اکتفاء کریں اور یہ عقیدہ رکھیں کہ علامات قیامت میں سے ایک یہ ہے کہ اس قسم کا جانور نکلے گا اور یہ اس وقت ہوگا جب توبہ کے دروازے بند ہوجائیں گے۔ اس وقت جو لوگ ہوں گے ان پر فیصلہ اٹل ہوجائے گا اور اب ان کے لیے توبہ کرنے کا کوئی موقعہ نہ ہوگا۔ بس اب جو لوگ جس حالت اور جس عقیدے پر ہوں گے ان کے بارے میں فیصلہ کردیا جائے گا۔ اس وقت یہ جانور نکلے گا۔ یہ ان کے ساتھ بات کرے گا جبکہ عموماً جانور بات نہیں کرتے یا ہم لوگ ان کی باتوں کو نہیں سمجھتے۔ لیکن آج سب لوگ اس جانور کی بات سمجھیں گے اور سمجھ لیں گے کہ یہ وہ معجزہ ہے جسے قیامت سے قبل آنا تھا۔ اس سے قبل وہ آیات الہیہ پر ایمان نہ لاتے تھے۔ نہ ان کی تصدیق کرتے تھے اور نہ قیامت کی تصدیق کرتے تھے

یہاں یہ بات پیش نظر رہے کہ سورت نمل میں ایسے مشاہدات و عجائبات کا ذکر ہے مثلاً حشرات الارض کی آپس میں گفتگو ، طیور کی گفتگو ، جنوں کی گفتگو ، اور سلیمان (علیہ السلام) کا ان کی گفتگو سمجھنا۔ اسی ضمن میں دابۃ الارض اور لوگوں کے ساتھ اس کی گفتگو ، مضمون کلام کی ہم آہنگی کا اظہار ہے۔ اس طرح قرآن کریم ہر سورت میں مناظر ، مثالیں اور مضامین و مفاہیم و معانی بھی باہم متناسب اور ہم آہنگ لے کر آتا ہے۔ (دیکھئے میری کتاب التصویر الغنی)

اب علامت دابۃ الارض کے بیان کے بعد ، بات خود مناظر قیامت میں داخل ہوتی ہے۔

ویوم نحشر من ۔۔۔۔۔۔۔ یوزعون (27: 83) ” اور ذرا تصور کرو اس دن کا ہم ہر امت میں سے ایک فوج کی فوج ان لوگوں کی گھیر لائیں گے جو ہماری آیات کو جھٹلایا کرتے تھے پھر ان کو مرتب کیا جائے گا “۔ تمام لوگوں کو اٹھایا جائے گا۔ اللہ کی مرضی یوں اس لیے ہوئی کہ وہ مکذبین کے موقف کو واضح کر دے۔ یوزعون کے معنی ہیں کہ ان سب کو ایک نظم کے ساتھ چلایا جائے گا ، ان کا اپنا کوئی اختیار و ارادہ نہ ہوگا اور نہ وہ اپنی مرضی سے کسی طرح جاسکیں گے۔

حتی اذا جآء ۔۔۔۔۔۔۔ کنتم تعملون (27: 84) ” یہاں تک کہ جب سب آجائیں گے تو وہ پوچھے گا : تم نے میری آیات کو جھٹلا دیا حالانکہ تم نے ان کا علمی احاطہ نہ کیا تھا ؟ اگر یہ نہیں تو اور تم کیا کر رہے تھے ؟ “ پہلا سوال تو ان کو شرمندہ کرنے اور ملامت کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ کیونکہ یہ بات تو معلوم و معروف تھی کہ انہوں نے تکذیب کی تھی۔ رہا دوسرا سوال تو وہ ان کی زندگی پر ایک بھرپور طنز ہے۔ اور اس انداز خطاب کے نظائر ہر زبان میں موجود ہوتے ہیں۔ کیا تم نے تکذیب کی یا تم کیا کرتے تھے ؟ کیونکہ بظاہر تمہاری زندگی کا کوئی مصرف نظر نہیں آتا۔ یعنی تکذیب کے علاوہ تمہاری زندگی کا اور تو کوئی عمل معلوم نہیں ہے جبکہ تمہیں تکذیب نہ کرنا چاہئے تھی۔ ایسے سوالات کا جواب ظاہر ہوتا ہے اس لیے جواب نہیں دیا جاتا اور مکاطب خاموش رہتا ہے۔ گویا اس سوال ہی کی وجہ سے مخاطب گنگ ہوجاتا ہے اور اس سے کوئی جواب بن نہیں پاتا۔

ووقع القول علیھم بما ظلموا فھم لاینطقون (27: 85) ” اور ان کے ظلم کی وجہ سے عذاب کا وعدہ ان پر پورا ہوجائے گا تب وہ کچھ بھی بول نہ سکیں گے “۔ یعنی دنیا میں ظلم اور شرک کرنے کی وجہ سے ان پر فیصلہ برحق ہوگیا اور اب وہ بیکار ، لاجواب اور خاموش کھڑے ہیں اور یہ اس وقت ہوگا جب دابۃ الارض بات کرے گا اور لوگ بات نہ کرسکیں گے۔ قرآن کے معجزاتی انداز کا یہ ایک پہلو ہے کہ وہ کلام کے اندر ایک حسین معنوی تقابل پیدا کرتا ہے کہ جانور بات کر رہا ہے ، اسکے منہ میں زبان ہے اور یہ انسان ہوکر بھی لاکلام ہیں۔ پھر یہاں مشاہد دنیا اور مشاہد قیامت کے درمیان بھی ایک امتزاج اور تقابل ہے۔ کبھی دنیا کا منظر سامنے آتا ہے اور کبھی آخرت کا کیونکہ خروج دابہ دنیا کے آخری ایام میں ہوگا۔ اور یوں فضا میں گہرا تاثر قائم ہوجاتا ہے

یہاں پہلے قیامت کا منظر ہے کہ مکذبین وہاں مبہوت اور لاجواب کھڑے ہیں۔ پھر بات دنیا کی طرف منتقل ہوجاتی ہے اور ان کے وجدان اور شعور کو بیدار کیا جاتا ہے اور دعوت دی جاتی ہے کہ وہ ذرا اس نظام کائنات پر غور تو کریں کہ الہہ العالمین کس قدر عظیم قدرت والا ہے کہ تمہارے لیے وہ تمام اسباب حیات مہیا کرتا ہے ۔ تمہارے لیے دنیا میں راحت اور آرام کے اسباب مہیا کرتا ہے۔ اس نے پوری کائنات کو اس طرح سازگار بنایا ہے کہ اس کے اندر تمہاری زندگی نہایت خوش و خرم گزر رہی ہے۔ یہ کائنات اور اس کی قوتیں ممد حیات ہیں ، مضر حیات نہیں ہیں۔ وہ حیات انسانی کیلئے معاون ہیں۔ اس کے ساتھ برسرپیکار نہیں ہیں۔

الم یروا انا ۔۔۔۔۔۔۔ لایت لقوم یومنون (27: 86) ” کیا ان کو سجھائی نہ دیتا تھا کہ ہم نے رات ان کے لیے سکون حاصل کرنے کو بنائی تھی اور دن کو روشن کیا تھا ؟ اس میں بہت نشانیاں تھیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے تھے “۔ رات کا منظر بالکل پرسکون اور خاموش ہے اور دن روشن اور گویا ہے۔ اور یہ منظر اس قابل ہیں کہ انسان کے اندر ایک ایسا شعور اور وجدان پیدا کریں جو اسے اللہ سے ملا دے ۔ جو رات اور دن کو گردش میں لانے والا ہے۔ رات اور دن کو منظر تو دراصل دو کائناتی شواہد ہیں اور ان لوگوں کے لیے کافی ہیں جو ایمان لانا چاہیں لیکن وہ ایمان نہیں لاتے۔

اگر رات نہ ہوتی تو تمام زمانہ دن پر مشتمل ہوتا اور اس کرہ ارض پر حیات ممکن نہ ہوتی اور اسی طرح اگر مسلسل رات ہوتی تو بھی زندگی ممکن نہ ہوتی بلکہ اگر رات اور دن اپنے موجودہ وقت سے دس گنا بھی طویل ہوتے تب بھی اس کرہ ارض پر زندگی محال ہوجاتی۔ سورج تمام نباتات کو جلا ڈالتا۔ اور رات تمام چیزوں کو منجمد کرکے رکھ دیتی۔ لہٰذا گردش لیل و نہار بھی انسانوں کے لیے ذریعہ حیات ہے لیکن لوگ ہیں کہ ایمان نہیں لاتے۔

اب گردش لیل و نہار کے ان دونوں دلائل و معجزات کے منظر سے بات چشم زدن میں قیامت کے مناظر کی طرف چلی جاتی ہے۔ ایک لمحہ پہلے انسان اس کرہ ارض پر خوش و خرم زندگی بسر کر رہے تھے کہ صور پھونک دیا گیا۔ زمین و آسمانوں کے درمیان ایک بھونچال سا آگیا ۔ تمام مخلوقات الا ماشاء اللہ خوفزدہ ہوگئی۔ پہاڑ اپنی جگہ سے چلنے لگے ، حالانکہ وہ سکون وقرار کی علامت تھے۔ پھر اس دن لوگوں کے انجام سامنے آگئے۔ کسی کا انجام امن و عافیت ہوا اور کسی کا جزع و فزع اور اوندھے منہ آگ میں گرائے جانے تک پہنچا۔

ویوم ینفخ فی الصور۔۔۔۔۔۔۔ الا ما کنتم تعملون (27: 87- 90) ” اور کیا گزرے گی اس روز جب کہ صور پھونکا جائے گا اور ہول کھا جائیں گے وہ سب جو آسمانوں اور زمین میں ہیں۔ ۔۔ سوائے ان لوگوں کے جنہیں اللہ اس ہول سے بچانا چاہے گا ۔۔۔ اور سب کان دبائے اس کے حضور حاضر ہوجائیں گے۔ آج تو پہاڑوں کو دیکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ خوب جمے ہوئے ہیں ، مگر اس وقت یہ بادلوں کی طرح اڑ رہے ہوں گے ، یہ اللہ کی قدرت کا کرشمہ ہوگا جس نے ہر چیز کو حکمت کے ساتھ استوار کیا ہے۔ وہ خوب جانتا ہے کہ تم لوگ کیا کرتے ہو۔ جو شخص بھلائی لے کر آئے گا اسے اس سے زیادہ بہتر صلہ ملے گا اور ایسے لوگ اس دن کے ہول سے محفوظ ہوں گے ، اور جو برائی لیے ہوئے آئے گا ، ایسے سب لوگ اوندھے منہ آگ میں پھینکے جائیں گے۔ کیا تم لوگ اس کے سوا کوئی اور جزا پاسکتے ہو کہ جیسا کرو ویسا بھرو ؟ “

صور وہ نرسنگھا ہے ، جس میں قیامت کے دن پھونکا جائے گا۔ اور یہ وہ آواز ہوگی جس سے زمین و آسمان کی تمام مخلوق خوفزدہ ہوجائے گی۔ الایہ کہ کسی کو اللہ اس سے مامون و محفوظ کر دے۔ کہا گیا ہے کہ شہداء اس سے محفوظ ہوں گے۔ تمام زندہ مخلوق بیہوش ہوجائے گی یا مر جائے گی۔ اس کے بعد دوسری بار پھونکا جائے گا تو تمام لوگ یکدم جی اٹھیں گے۔ وکل اتوہ دخرین (27: 87) ” اور سب کان دبا کر اس کے حضور حاضر ہوں گے “۔ یعنی نہایت مطیع فرمان ، سرخم کیے ہوئے ہوں گے۔ اس خوف و ہراس کے ساتھ ہی افلاک کا موجودہ نظام خلل پذیر ہوجائے گا اور پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑیں گے۔ تمام مدار ختم ہوں گے۔ اور پہاڑ بادلوں کی طرح چل پڑیں گے اور بکھر جائیں گے۔ جس طرح لوگ مشوش ہوں گے اسی طرح پہاڑ بھی مشوش ہوں گے۔ ذی حیات اور جمادات سب میں انتشار ہوگا ، گویا پہاڑ بھی کو فزدہ ہوجائیں گے اور حیران و پریشان دوڑتے پھریں گے۔ اور پریشان و بےقرار ہوں گے۔ زندہ چیزوں کی طرح ان کی حرکت کی نہ سمت ہوگی نہ کوئی قرار ہوگا۔

صنع اللہ الذی اتقن کل شی (27: 88) ” یہ اللہ کی قدرت کا کرشمہ ہے جس نے ہر چیز کو حکمت کے ساتھ استوار کیا “۔ سبحان اللہ ، اس کی کاریگری کی خوبصورتی اور کمال تو اس کی تمام مصنوعات سے عیاں ہے ۔ اس کا ہر کام صحیح وقت پر ہوتا ہے ، اس میں کوئی نقص ، کوئی بخت و اتفاق ، کوئی بغاوت نہیں ہے نہ اس میں اللہ نے کوئی چیز بھال دی ہے ۔ اس نے جو چیز بھی بنائی ہے اس کے مالہ و ما علیہ کو مکمل کیا۔ ہر چیز بامقصد بنائی۔ ہر چھوٹی اور بڑی چیز ایک اندازے سے رکھی۔ منصوبے اور مقاصد کے مطابق اور اس کے اندر اس قدر گہری حکمت اور دقیق منصوبہ بندی ہے کہ سر چکرا جاتے ہیں۔ مزید تفصیلات دیکھئے سورة الفرقان

کی آیت خلق کل شئ کی تفسیر میں۔

انہ خبیر بما تفعلون (27: 88) ” وہ خوب جانتا ہے کہ تم کیا کرتے ہو “۔ اور یہ ہے یوم الحساب ، ان کاموں کا جو تم دنیا میں کرتے رہے ہو۔ اور اس دن کو اس ذات نے مقرر کیا ہے جس کی قدرت کا کرشمہ یہ پوری کائنات ہے۔ اللہ اسے اپنے وقت پر لایا ہے۔ اس میں ایک گھنٹے کی تقدیم و تاخیر ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ اس نے ہر چیز کو حکمت کے ساتھ پیدا کیا ہے اور ہر چیز نے اس کی حکمت کے مطابق اپنا کردار ادا کرنا ہے تاکہ عمل اور مکافات عمل کی خدائی اسکیم اپنے انجام کو پہنچے۔ عمل پہلی زندگی میں

ہو اور اس کا اجر وثواب دوسری زندگی میں۔

صنع اللہ الذی۔۔۔۔ بما تفعلون (27: 88) ” یہ اللہ کی قدرت کا کرشمہ ہوگا جس نے ہر چیز کو حکمت کے ساتھ استوار کیا۔ وہ خوب جانتا ہے کہ تم کیا کرتے ہو “۔ اس خوفزدہ کرنے والے ہولناک دن میں ، وہ لوگ جنہوں نے دنیا کی زندگی میں اچھے کام کیے ، نہایت ہی امن و سکون میں ہوں گے۔ اور اس امن و سکون کے علاوہ ان کو جو اجر اور بدلہ ملے گا وہ بہت ہی بڑا ہوگا اور کافی و شافی ہوگا۔

من جآء ۔۔۔۔۔ یومئذ امنون (27: 89) ” جو شخص بھلائی لے کر آئے گا اسے اس سے بہتر صلہ ملے گا اور ایسے لوگ اس دن کے ہول سے محفوظ ہوں گے “۔ قیامت کے دن کے ہول سے پر امن رہنا ہی ہمارے حقیر اعمال کی پوری جزاء ہے۔ اس کے بعد جو انعامات و اکرامات ملیں گے وہ گویا انعام اور پنشن ہے۔ اس لیے کہ اہل تقویٰ دنیا میں بھی اللہ سے ڈرتے رہتے تھے لیکن دنیا میں اللہ کے خوف اور تقویٰ کے ساتھ آخرت کے ہول کو جمع کرنا مناسب نہ سمجھا۔ بلکہ اللہ نے اہل تقویٰ کو اس سے مستثنیٰ کیا۔ اس دن جو مخلوق بھی زمین و آسمانوں میں ہے وہ اس ہول کا شکار ہوگی ماسوائے ان لوگوں کے جن کو اللہ نے بچا لیا اور یہ متقین ہوں گے۔

ومن جآء ۔۔۔۔۔۔ فی النار (27: 90) ” اور جو برائی لئے ہوئے آئے گا ایسے سب لوگ اوندھے منہ اگ میں پھینکے جائیں گے “۔ یہ نہایت ہی خوفناک منظر ہے کہ لوگوں کو لا لا کر جہنم کے دھانے سے اوندھے منہ اس کے اندر گرایا جا رہا ہوگا اور اس پر مزید ان کو زجر و توبیخ بھی کی جا رہی ہوگی۔

ھل تجزون الا ما کنتم تعملون (27: 90) ” کیا تم لوگ اس کے سوا کوئی اور جزا پاسکتے ہو کہ جیسا کرو ویسا بھرو “۔ اس سے قبل دنیا میں انہوں نے ہدایت سے منہ موڑا اور انکار کیا۔ اس لیے یہاں ان کو بطور سزا منہ کے بل آگ میں گرایا جا رہا ہے کیونکہ ان کے سامنے سچائی نہایت ہی واضح ہو کر اور کھل کر آگئی تھی۔ اور اس طرح واضح تھی جس طرح رات اور دن واضح تھے مگر انہوں نے منہ موڑا۔