انسان ایک ایسی مخلوق ہے جو آنکھ، کان اور دماغ کی صلاحیتیں رکھتا ہے۔ ان صلاحیتوں کو اگر کھلے طریقے سے استعمال کیا جائے تو وہ بے خطا طورپر حقیقتوں کو دیکھنے اور پہچاننے کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ لیکن اگر کوئی شخص اپنے آپ کو کسی مصنوعی تصور سے مغلوب کرلے تو اس کی ادراک کی صلاحیتیں معطل ہو کر رہ جاتی ہیں۔ اس کے سامنے حقیقت بے نقاب صورت میں آتی ہے مگر وہ اس سے اس طرح بے خبر رہتا ہے جیسے کہ وہ اندھا بہرا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں اسی شخص کو راستہ دکھایا جاسکتا ہے جو راستہ دیکھنا چاہے۔ جس کے اندر خود راستہ کی تڑپ نہ ہو اس کے ليے کسی رہنما کی رہنمائی کام آنے والی نہیں۔
حق پرست بننے کے ليے سب سے زیادہ جو چیز درکار ہے وہ اعتراف ہے۔ اس دنیا میں اسی شخص کو ہدایت ملتی ہے جس کے اندر یہ مادہ ہو کہ جو بات دلائل سے واضح ہو جائے وہ فوراً اس کو مان لے اور اپنی زندگی کو اس کی ماتحتی میں دے دے۔
جو لوگ خدا کی دعوت کے آگے نہ جھکیں۔ انھیں آخر کار خدا کے فیصلے کے آگے جھکنا پڑتا ہے۔ مگر اس وقت کا جھکنا کسی کے کچھ کام آنے والا نہیں۔