ان ھذا القران ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لا من یؤمن بایتنا فھم مسلمون (81)
نصاری کے درمیان حضرت عیسیٰ اور آپ کی والدی کے بارے میں شدید اختلاف رائے تھا۔ ایک گروہ کا خیال تھا کہ حضرت عیسیٰ محض ایک انسان تھے۔ بعض کہتے تھے اللہ نے ان کے بارے میں باپ ، بیٹے اور روح القدس کے جو الفاظ استعمال کیے ہیں دراصل وہ اللہ نے ذات باری کے لیے مختلف الفاظ استعمال کیے ہیں۔ تو اس گروہ کے نزدیک اللہ تین اقانیم سے مرکب ہے۔ اب ، ابن اور روح القدس۔ ابن چونکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تھے تو اللہ ، جو صورت رب میں تھے ، وہ روح القدس کی صورت میں اترے اور حضرت مریم میں ایک انسان کی شکل اختیار کر گئے۔ اور یہ اللہ پھر مریم سے بصورت انسان پیدا ہوئے۔ ایک جماعت نے کہا کہ ابن ازلی نہیں ہے ، جس طرح باپ ازلی ہے۔ ہاں وہ عالم سے قبل پیدا کردہ ہے۔ لہٰذا وہ رب سے کم درجے کا ہے اور رب کے تابع فرمان ہے۔ بعض لوگوں نے کہا کہ روح القدس اقتوم نہیں ہے اور نیقیا کی مجلس منعقدہ 325 نے یہ فیصلہ کیا اور قسطنطینہ کی مجلس 381 نے اس کی توثیق کی کہ ابن اور روح القدس باپ کے برابر ہیں اور یہ بھی لاہوت کی وحدت کا حصہ ہیں۔ یہ بیٹے بھی ازل ہی میں پیدا ہوئے تھے جبکہ روح القدس رب سے نکلے ہیں۔ اور طیفلہ کی مجلس منعقدہ 589 نے یہ فیصلہ کیا کہ روح القدس ابن سے نکلا ہے۔ اس نکتے پر مشرقی اور مغربی کنیہ کے درمیان افتراق پیدا ہوگیا جو آج تک نکتہ اختلاف ہے۔ قرآن کریم جب نازل ہوا تو اس نے ایک فیصلہ کن بات کردی کہ وہ ایک کلمہ ہے جو اللہ نے مریم کی طرف بھیجا اور اللہ کی طرف سے روح ہے۔ اور وہ بشر ہیں
ان ھو الا ۔۔۔۔۔ اسراء یل (43: 59) ” نہیں ہے وہ مگر ایک بندہ جس پر ہم نے انعام کیا اور اسے بنی اسرائیل کے لیے ایک مثال بنا دیا “۔ یہ تھی وہ فیصلہ کن بات جس میں ان کے درمیان اختلاف رائے تھا۔
اسی طرح بنی اسرائیل کے اندر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی سولی پر چٖڑھائے جانے کے مسئلے میں بھی اختلاف ہوا۔ بعض کا عقیدہ یہ تھا کہ آپ کو سولی پر چڑھایا گیا۔ آپ فوت ہوگئے اور دفن کر دئیے گئے اور تین دنوں کے بعد آپ اپنی قبر سے نکلے اور آسمانوں کی طرف اٹھالیے گئے۔ بعض کا عقیدہ یہ تھا کہ آپ کے حواریوں میں سے ایک شخص یہوذا کو حضرت مسیح کے مشابہ بنا دیا گیا اور اس کو سولی دے دی گئی اس لیے کہ اس شخص نے حضرت مسیح کے ساتھ خیانت کی تھی اور حکومت کو آپ کی نشاندہی کی تھی اور آپ گرفتار ہوگئے تھے۔ بعض کا عقیدہ یہ تھا کہ آپ کے ایک حواری شمعون کو آپ کا مشابہ بنا دیا گیا اور وہ گرفتار ہوئے۔ قرآن کریم نے اصل بتا دی وما قتلوہ وما صلبوہ ولکن شبہ لھم (4: 157) ” انہوں نے اسے قتل نہیں کیا اور نہ سولی پر چڑھایا ، لیکن ان کو شبہ میں ڈال دیا گیا “۔ اور دوسری جگہ قرآن مجید نے فرمایا :
یا عیسیٰ انی ۔۔۔۔۔۔ ومطھرک (3: 55) ” اے عیسیٰ میں تمہیں واپس لے لوں گا اور اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور تمہیں پاک کرنے والا ہوں “۔ یہ حضرت عیسیٰ کے بارے میں فیصلہ کن بات تھی۔
اس سے قبل یہودیوں نے بھی تورات کی شریعت کو بدل دیا تھا۔ کئی احکام میں تحریفات کردی گئی تھی۔ قرآن مجید آیا تو اصل شریعت بتا دی۔
وکتبنا علیھم فیھا ۔۔۔۔۔۔۔ قصاص ” تورات میں ہم نے یہودیوں پر یہ حکم لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان ، آنکھ کے بدلے آنکھ ، ناک کے بدلے ناک ، کان کے بدلے کان ، دانت کے بدلے دانت اور تمام زخموں کے لیے برابر کا بدلہ “۔ قرآن کریم نے بنی اسرائیل کی تاریخ اور ان کے انبیاء کے بارے میں حقائق بتائے۔ اور ان حقائق میں سے ان قصے اور کہانیوں اور افسانوں کو علیحدہ کرکے صاف کردیا جو ان حقائق کے ساتھ انہوں نے ناحق ملا دئیے تھے۔ یہ افسانے ایسے تھے کہ ان کے ہوتے ہوئے کوئی نبی بھی معصوم اور پاک ہوکر نہیں نکل سکتا تھا۔ ان کے افسانوں کے چند نمونے مشہور ہیں۔ انہوں نے ابراہیم (علیہ السلام) پر الزام لگایا کہ انہوں نے ابو مالک شاہ فلسطین اور فرعون شاہ مصر کے سامنے اپنی بیوی کو بہن کہہ کر پیش کیا۔ اور ان کے کہنے کے مطابق حضرت ابراہیم ان کی نظروں میں مقام بلند حاصل کرنا چاہتے تھے۔ اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) جن کا نام اسرائیل تھا ، انہوں نے خود اپنے باپ اسحاق سے ، حضرت ابراہیم کی برکات حیلہ سازی ، جھوٹ اور چوری کے طور پر حاصل کیں۔ جبکہ یہ تبرکات ان کے بڑے بھائی عیصو کی ملکیت تھیں۔ اور حضرت لوط کے بارے میں ان کی روایات یہ ہیں کہ ان کی دو بیٹیوں نے ان کی میراث اوروں کے پاس نہ چلی جائے اور جس طرح ان لڑکیوں نے چاہا ایسا ہی ہوا۔ اور داؤد نے اپنے محل میں ایک خوبصورت عورت کو دیکھا اور معلوم ہوا کہ وہ ان کے فوجی کی بیوی ہے۔ پھر اس فوجی کو انہوں نے ایک ہلاکت آفرین مہم میں بھیجا تاکہ وہ بیوی کو حاصل کرسکیں۔ اور سلیمان لعل کی عبادت کی طرف مائل ہوگئے۔ محض اپنی عورتوں میں سے ایک عورت کو خوش کرنے کے لئے ، کیونکہ ان کو اس کے ساتھ محبت تھی اور وہ اس کے مطالبے کو رد نہ کرسکتے تھے۔ یہ تھے ان کے الزامات اپنے پیغمبروں پر۔
اور جب قرآن کریم نازل ہوا تو اللہ نے تمام پیغمبروں کی صفائی بیان کی اور ان اوہام اور افسانوں کو پیغمبروں کی سیرتوں سے نکال دیا۔ کیونکہ یہ اوہام یہود و نصاریٰ نے خود اپنی کتابوں کے اندر داخل کر دئیے تھے۔ خصوصا قرآن کریم نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت مریم (علیہا السلام) کی ذات کے ساتھ منسوب تمام غلط باتوں کی نفی کی اور وہ صحیح تعلیمات بیان کردیں جو اللہ کی طرف سے تھیں۔ اس مفہوم میں اس قرآن کو سابقہ کتب کے لیے مہیمن کہا گیا ہے کہ وہ سابقہ کتب کے اختلافات کا فیصلہ کرتا ہے اور تمام اختلافی اور جدلیاتی مسائل میں فیصلہ کن بات کرتا ہے۔
وانا لھدی ورحمۃ للمومنین (27: 77) ” اور یہ ہدایت و رحمت ہے ایمان لانے والوں کے لیے “۔ یہ وہ ہدایت ہے جو اہل ایمان کو ضلالت اور اختلاف سے بچاتا ہے۔ ان کو ایک منہاج حیات دیتا ہے۔ زندگی کی راہ میں ان کے ساتھ معاونت کرتا ہے اور ان کو اپنی تعلیماے اور نظریات دیتا ہے جو اس پوری کائنات میں موجود سنن الہیہ سے ہم آہنگ ہیں۔ اور یہ قرآن ہدایت کے ساتھ رحمت بھی ہے ۔ انسانوں کو شک ، بےچینی اور پریشانی اور بےیقینی سے نجات دیتا ہے۔ اور انسان کو ایسے کچے نظریات سے بچاتا ہے جو آئے دن بدلتے رہتے ہیں۔ پائے چوبیں رکھتے ہیں اور اپنے حال پر کھڑے نہیں ہوسکتے۔ اس کی تعلیمات انسان کو مطمئن کرکے اللہ کے جوار رحمت اور بارگاہ سکون تک پہنچاتی ہیں۔ اس طرح انسان اپنے ماحول ، اپنی سوسائٹی اور کود اپنے افکار کے ساتھ ہم آہنگ ہیں اور آشتی کے ساتھ رہتے ہیں۔ اور آخرت میں اللہ کی رضا مندی اور عظیم ثواب کے مستحق ہوتے ہیں۔ انسانی نفس کی تربیت اور از سر نو قوانین فطرت کے مطابق اس کی تسکیل و تصفیل کے معاملے میں قرآنی طریق کار ایک منفرد طریق کار ہے۔ اس طریق کار کے مطابق انسان اپنی زندگی ان قوانین فطرت کے مطابق گزارتا ہے جو خود اس کائنات میں بھی جاری وساری ہیں اور اس طرح انسان کی زندگی نہایت سکون کے ساتھ ، فطری انداز میں گزرتی ہے۔ اس میں کوئی تکلف اور بناوٹ نہیں ہوتی۔ اسلامی منہاج تربیت کے نتیجے میں انسان اپنی زندگی کی گہرائیوں تک میں اطمینان محسوس کرتا ہے اور یہ بہت بڑی دولت ہوتی ہے۔ اور یہ اطمینان اسے اس وجہ سے حاصل ہوتا ہے کہ اسلامی نظام تربیت کے مطابق انسان کی زندگی قوانین فطرت کے ساتھ متصادم نہیں ہوتی اور نہ انسان قوانین فطرت اور ان کے مطابق چلنے والی اس کائنات سے متصادم ہوتا ہے ، نہ انسانی اخلاقیات ان قوانین فطرت سے متصادم ہوتی ہیں۔ بشرطیکہ انسان قوانین فطرت اور نوامیس کو اچھی طرح معلوم کرسکے اور وہ مقامات معلوم کرلے جہاں انسانی شخصیت اور اس کائنات کے درمیان باہم اتصال ہوتا ہے۔ اور انسان اس نتیجے تک پہنچ جائے کہ انسانی فطرت اور کائناتی فطرت اور اسلامی نظام زندگی کے درمیان کوئی تضاد نہیں ہے بلکہ وہ باہم متناسب اور ہم آہنگ ہیں۔ یہ ہے وہ عظیم سلامتی جو انسانی شخصیت اور انسان کے اردگرد پھیلی ہوئی اس عظیم کائنات کے درمیان قائم ہوتی ہے اور اس سلامتی کے نتیجے میں انسانی سوسائٹی نہایت ہی پر سکون زندگی بسر کرتی ہے۔ اور یہ ہے وہ رحمت جس کی طرف قرآن کریم اشارہ کرتا ہے۔ یہ رحمت الہیہ کا وسیع تر مفہوم ہے۔
ان اشارات کے بعد کہ قرآن کریم بنی اسرائیل کے بیشتر نطریاتی مسائل کو حل کرتا ہے ، ان کے اختلافات کو دور کرتا ہے اور اہل ایمان کو ایک فطری نظام زندگی دے کر ان کو عظیم سکون اور سلامتی عطا کرتا ہے۔ اب اللہ تعالیٰ حضرت نبی ﷺ کو یہ تسلی دیتا ہے کہ آپ کی قوم آپ کے ساتھ ناحق مجادلہ کر رہی ہے۔ اس کا فیصلہ بھی عنقریب اللہ کر دے گا ۔ ایسا فیصلہ جسے کوئی رد نہ کرسکے گا۔ کیونکہ اللہ کے فیصلے حقائق اور صحیح علم پر مبنی ہوتے ہیں۔
فتوکل علی اللہ انک علی الحق المبین (27: 79) ” پس اے نبی ﷺ ، اللہ پر بھروسہ رکھو یقیناً تم صریح حق پر ہو “۔ اللہ تعالیٰ نے حق کی نصرت کرنا ، حق کو غالب کرنا ، اپنے اوپر اسی طرح لازم قرار دیا ہے جس طرح اس کائنات میں اللہ کے دوسرے چلنے والے قوانین لازمی اور اٹل ہیں۔ یہ قوانین رکتے نہیں ، اسی طرح حق بھی غالب آتا ہے لیکن اللہ کی بعض پوشیدہ حکمتوں کی وجہ سے کبھی کبھار یہ غلبہ دیر سے آتا ہے اور ان حکمتوں کو اللہ ہی جانتا ہے۔ کچھ مقاصد ہوتے جن کا علم صرف اللہ کو ہوتا ہے لیکن یہ سنت پوری ہوکر رہتی ہیں اور آخر کار حق کو غلبہ نصیب ہوتا ہے۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے اور اس کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔ انسان کا ایمان اس وقت تک پورا اور مکمل نہیں ہوسکتا جب تک وہ اس سنت کے اٹل ہونے پر ایمان نہ لائے۔ مطلب یہ ہے کہ حق کی کامیابی کے لیے اللہ کے ہاں ایک وقت مقرر ہوتا ہے اور اس سے قبل یہ کامیابی نہیں آسکتی۔ انسان اگر جلدی کرتے ہیں تو یہ اس کی غلطی ہوگی۔
نبی ﷺ کو اپنی قوم کی طرف سے بڑی مشکلات درپیش تھیں ، بات بات پر وہ جھگڑتے تھے ، کٹ جحتی اور ہٹ دھرمی کرتے تھے۔ محض عناد کی وجہ سے بادی النظر چیزوں کو بھی نہ مانتے تھے۔ حضور ﷺ کی جدوجہد اور نہایت ہی واضح بیان و تبلیغ کے بعد بھی وہ کفر پر اصرار کر رہے تھے۔ قرآن کریم کے بار بار کے خطاب کو نظر انداز کر رہے تھے۔ ان سب باتوں پر آپ کو تسلی دی جاتی ہے کہ آپ ﷺ نے تو تبلیغ کا حق ادا کردیا ہے ، کوئی قصور نہیں کیا ہے ، لیکن بات کو وہ لوگ سنتے ہیں جو زندہ ہوں اور ان کے کانوں کے پردے حساس ہوں۔ مردے تو کبھی سنا نہیں کرتے۔ مردوں کا دماغ مرچکا ہوتا ہے اور وہ غور و فکر سے عاری ہوجاتے ہیں۔ اس لیے مردے نہ ایمان لاتے ہیں اور نہ سنتے ہیں۔ بس آپ کی قوم کے دل و دماغ مرچکے ہیں۔ لہٰذا ان کو سنانا اب نہ سنانے کے برابر ہوگیا ہے۔ ہدایت پر آنے کی ان کے سامنے کوئی سبیل باقی نہیں ہے۔ اب چھوڑدیں ان کو اپنی گمراہی اور سرکشی اور بےراہ روی پر۔
انک لا تسمع ۔۔۔۔۔۔۔ فھم مسلمون (27: 80- 81) ” تم مردوں کو نہیں سنا سکتے ، نہ ان بہروں تک اپنی پکار پہنچا سکتے ہو ، جو پیٹھ پھیر کر بھاگے جا رہے ہوں ، اور نہ اندھوں کو راستہ بتا کر بھٹکنے سے بچا سکتے ہو۔ تم تو اپنی بات انہی لوگوں کو سنا سکتے ہو جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں اور پھر فرماں بردار بن جاتے ہیں “۔
قرآن کریم نے نہایت ہی عجیب انداز میں ان لوگوں کی نظریاتی اور نفسیاتی حالت کی تصویر کشی کی ہے۔ چناچہ غیر محسوس معانی کو محسوس شکل دے دی ہے۔ قلبی جمود ، روح کی مردنی ، کند ذہنی اور شعور کی گراؤٹ کو یوں بیان کیا ہے کہ گویا یہ لوگ مردے ہیں اور بہرے ہیں اور رسول ان کو پکار رہا ہے۔ یہ نہیں سنتے ، نہ جواب دیتے ہیں۔ کیونکہ مردے نہ سنتے ہیں ، نہ ان کو شعور ہوتا ہے اور نہ جواب دے سکتے ہیں۔ ایک دوسری محسوس صورت یوں ہے کہ ایک شخص بہرا ہے۔ بالکل نہیں سنتا اور پکار والے کی طرف اس کا رخ بھی نہیں ہے۔ بلکہ وہ مخالف سمت پر جا رہا ہے۔ ایسے شخص کو لاکھ پکارو وہ نہ سنے گا۔ کبھی قرآن ان کو اس شکل میں لاتا ہے جس طرح اندھا ہوتا ہے۔ ایک اندھا شخص راہ راست پر کیسے جاسکتا ہے۔ جب اسے اگلے قدم پر کوئی چیز نظر ہی نہیں آتی۔ ان آیات میں ان تمام صورتوں کو نہایت ہی مجسم و شخصی صورت میں پیش کردیا گیا ہے۔
اب ان مردوں ، بہروں اور اندھوں کے مقابلے میں اہل ایمان ہیں۔ یہ زندہ ہیں ، یہ سنتے ہیں ، یہ دیکھتے ہیں۔
ان تسمع الا من یومن بایتنا فھم مسلمون (27: 81) ” آپ اپنی بات انہی کو سنا سکتے ہیں جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں اور پھر فرماں بردار بن جاتے ہیں “۔ یعنی جن لوگوں کے اندر زندگی ، قوت سامعہ اور قوت باصرہ ہے۔ آپ انہی کو سنا سکتے ہیں ۔ اور ایسے ہی لوگوں کو سنائیں۔ یہ علامات زندگی ہیں اور شعور زندہ لوگوں میں ہوتا ہے۔ سننے والے اور دیکھنے والے ہی دعوت کو قبول کرسکتے ہیں اور یہ اہل ایمان ہی ہیں جن کے اندر حیات ، سماعت اور بصارت پائی جاتی ہے۔ ان لوگوں پر رسول اللہ ﷺ نے کام کیا۔ انہوں نے دعوت کو قبول کیا اور سرتسلیم خم کردیا۔
اسلام بہت ہی سادہ اور قریب الفہم دین ہے۔ فطرت سلیم کے بہت ہی قریب ہے۔ قلب سلیم اور فطرت سلیم دعوت اسلامی کو پاتے ہی قبول کرتے ہیں اور سر تسلیم خم کردیتے ہیں۔ وہ پھر قیل و قال اور جدل وجدال میں نہیں پڑتے۔ یہی تصویر ہے اہل ایمان کی اور ایسے ہی لوگوں کو دعوت دینا چاہئے۔ ایسے لوگ دعوت کو سنتے ہی اس کی طرف لپکتے ہیں اور فوراً ایمان لاتے ہیں۔ مردوں کو اپنی جگہ پر چھوڑ کر داعی کو ایسے لوگوں تک پہنچنا چاہئے جو قبولیت کے لیے تیار ہوں۔