سورة طہ میں بھی اس قصے کی یہ کڑی لائی گی تھی ۔ جب آپ مدین سے مصر کی طرف لوٹ رہے تھے اور آپ کے ساتھ آپ کی بیوی ، حضرت شعیب (علیہ السلام) کی دختر بھی رفیق تھیں۔ ایک ادھیری سیاہ اور سردرات میں آپ سے راستہ گم ہوگیا تھا۔ حضرت کے الفاظ ” میں تو ابھی یا تو وہاں سے کوئی خبر لے آتا ہوں یا کوئی انکار اچن لاتا ہوں تاکہ تم گرم ہو سکو۔ “ اس وقت حضرت موسٰ کوہ طور کے ایک طرف تھے۔ اور اس زمانے میں یہ رواج تھا کہ بلند ٹیلوں پر ات کے وقت آ گ چلائی جاتی تھی۔ تاکہ اگر کوئی مسافر بھٹک جائے تو اس کی راہنمائی ہو۔ ایسی صورت میں جب کوئی مسافر آتا تو اسے مہمان نوازی بھی ملتی اور وہ سردی میں اپنے آپ کو گرم بھی کرتا اور صحراء میں راستے کی راہنمائی بھی ہوتی۔
انی انست نارا (82 : 8) ” مجھے ایک آگ سی نظر آنی ہے “ دور سے انہوں نے آگ کو دیکھا تو ان کو ایک گونہ اطمینان حاصل ہوگیا اور یہ امید پیدا ہوگئی کہ اس آگ کے پاس جا کر انہیں کچھ نہ کچھ راہنمائی مل جائے گی یا وہ کوئی انگارا لے آئیں گے جس سے وہ آگ جلا کر اس صحراء میں اپنے آپ کو گرم کرسکیں گے۔
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس آگ کی طرف آگے بڑھے جسے انہوں نے دیکھا تھا تاکہ وہ وہاں سے کوئی خبر لائیں۔ اچانک یہاں انہیں ایک نہایت ہی معزز اور شاہانہ آواز آتی ہے۔