قل سیروا فی الارض ۔۔۔۔۔ المجرمین (27: 69) ” “۔ یہاں ، اس ہدایت ، سیر فی الارض کے ذریعہ ان کی سوچ کے حدود کو وسیع کیا جاتا ہے۔ کیونکہ انسانیت کی کوئی سوسائٹی بھی سجرہ انسانیت سے مقطوع نہیں ہوتی۔ انسانیت کے لیے اللہ تعالیٰ نے جو سنن رکھے ہیں وہ سب کے لیے اٹل ہیں۔ اس سے قبل انسانی سوسائٹیوں کے مجرمین کو جو حالات درپیش ہوئے ، بعد میں انے والے بھی لازما ان جیسے حالات ہی سے دوچار ہوں گے۔ کیونکہ اللہ کے سنن اٹل ہوتے ہیں ، وہ کسی کی رو رعایت نہیں کرتے۔ اور زمین میں چلنے پھرنے سے نفس انسانی کی اطلاعات کا دائرہ بہت ہی وسیع ہوجاتا ہے۔ انسان کا دماغ روشن ہوجاتا ہے اور سیرفی الارض کے دوران انسان پر ایسے لمحات آتے ہیں کہ انسان کا ضمیر روشن ہوجاتا ہے ۔ قرآن کریم انسانوں کو اس کائنات کے اٹل اصولوں اور سنن کی طرف بار بار متوجہ کرتا ہے۔ اور انسانوں کو دعوت دیتا ہے کہ ان سنن یا بالفاظ دیگر سلسلہ علت و مطول پر ذرا غور کرو ، اس کی کڑیوں کو دیکھتے چلے جاؤ، تاکہ تمہاری زندگی انسانیت کی مجموعی زندگی سے وابستہ اور متصل رہے اور تمہاری سوچ کی حدود وسعت اختیار کریں۔ تمہاری سوچ محدود ، تنگ اور زندگی کے دھارے سے منقطع نہ ہو۔
ان توجہات کے بعد اب رسول اللہ ﷺ کو ہدایت کی جاتی ہے کہ ان لوگوں سے اپنے ہاتھ جھاڑ دیں۔ ان کو چھوڑ دیں کہ وہ جس انجام سے دو چار ہوتے ہوں ہوجائیں۔ جس طرح تاریخ میں ان سے قبل بھی ایسے مجرمین ایسے ہی انجام سے دوچار ہوئے۔ اور یہ لوگ تحریک اسلامی کے خلاف جو مکاریاں کر رہے ہیں ۔۔۔۔ ۔ کو کوئی نقصان نہ دے سکیں گی۔ نیز ازروئے ہمدردی ان کے
لیے پریشان بھی نہ ہوں کیونکہ آپ نے تبلیغ اور راہنمائی کا حق ادا کردیا ہے اور ان کو خوب سمجھا دیا ہے۔