لقد وعدنا ۔۔۔۔۔۔ اساطیر الاولین (27: 67)
یہ لوگ جانتے تھے کہ ان سے پہلے بھی ، رسولوں نے ان کے آبا کو اسی طرح قیامت سے ڈرایا ہے اور حساب و کتاب اور حشر و نشر کی بات کی ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عربوں کے لیے عقیدہ آخرت بالکل ایک نیا عقیدہ نہ تھا۔ یہ نہ تھا کہ وہ بعث بعد الموت کے معنی ہی نہ سمجھتے ہوں بلکہ ان کا اعتراض یہ تھا کہ صدیوں سے یہ وعدے کیے جا رہے ہیں ان کا تحقق نہیں ہوا۔ چناچہ اس بنا پر وہ اس عقیدے کا مذاق اڑاتے تھے۔ اور کہتے تھے کہ یہ پرانے لوگوں کی کہانیاں ہیں اور حضرت محمد ﷺ ان کو نقل کرتے چلے آرہے ہیں۔ یہ لوگ اس بات سے غافل تھے کہ قیام قیامت کے لیے تو ایک وقت مقرر ہے۔ وہ نہ کسی کی جلد بازی سے جلدی آسکتا ہے اور نہ کسی کی غفلت کی وجہ سے موخر ہو سکتا ہے۔ یہ تو ایک معلوم اور مقرر وقت پر ہوگا اور اس کا علم زمین و آسمان دونوں کی مخلوقات سے خفیہ رکھا گیا ہے۔ حضرت محمد ﷺ نے جبرئیل (علیہ السلام) سے یہی کہا ، جب انہوں نے آپ ﷺ سے قیامت کے بارے میں پوچھا۔
ما المسؤل عنھا باعلم من السائل ” اس کے بارے میں پوچھے جانے والا پوچھنے والے سے زیادہ علم نہیں رکھتا “
یہاں ان لوگوں کو ان لوگوں کی قتل گاہوں کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے ، جو ان سے قبل ہلاک کیے گئے ، جنہوں نے سچائی کا انکار کیا اور قرآن میں یہاں ان کو مجرمین سے تعبیر کیا گیا ہے۔