کسی پیغمبر کے مخاطب آخرت کے مطلق منکر نہ تھے۔ بلکہ وہ اس تصورِ آخرت کے منکر تھے جس کو پیغمبر پیش کرتے تھے۔ لوگ یہ یقین کيے ہوئے تھے کہ آخرت کا مسئلہ ان کے اپنے ليے نہیں ہے بلکہ دوسروں کے ليے ہے۔ پیغمبر نے بتایا کہ آخرت تمھارے ليے بھی ویسا ہی ایک سنگین مسئلہ ہے جیسا کہ وہ دوسروں کے ليے ہے۔ لوگ سمجھتے تھے کہ اپنے بزرگوں سے وابستگی آخرت میں ان کے ليے نجات کا ذریعہ بن جائے گی۔ پیغمبروں نے بتایا کہ آخرت میں صرف خدا کی رحمت آدمی کے کام آئے گی، نہ کہ کسی بزرگ سے وابستگی۔
یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ آخرت کے بارے میں ایک قسم کے ذہنی الجھن میں پڑے ہوئے تھے۔ ان کے بعض سر پھرے کبھی ایسے الفاظ بولتے جیسے کہ وہ آخرت کے منکر ہوں۔ مگر عام لوگوں کا حال یہ تھا کہ وہ نفسِ آخرت کا انکار نہیں کرتے تھے۔البتہ پیغمبر کے تصورِ آخرت کو ماننے میں زندگی کی آزادیاں ختم ہوتی تھیں۔ اس ليے ان کا نفس اس کو ماننے کے ليے تیار نہ تھا۔ چنانچہ اس کے جواب میں وہ ایسی باتیں کرتے تھے جیسے کہ وہ شک میں ہوں۔ اپنی اسی ذہنی کیفیت کی وجہ سے انھوںنے آخرت کے دلائل پر کبھی سنجیدگی کے ساتھ غور نہیں کیا۔ اس کے بارے میں وہ اندھے بہرے بنے رہے۔
حقیقت یہ ہے کہ قوموں کا فیصلہ کرنے کے ليے جو طاقتیں درکار ہیں وہ صرف خدائے عالم الغیب کو حاصل ہیں۔ وہ جزئی طورپر موجودہ دنیا میں بھی اپنا فیصلہ نافذ کرتا ہے۔ اور وہی آخرت میں کلی طورپر تمام قوموں کے اوپر اپنا فیصلہ نافذ فرمائے گا۔