undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

وقال الذین کفروا ۔۔۔۔۔ انا لمخرجون (27: 67) ۔ کفار کے سامنے یہی عقیدہ تھا کہ جب ہم مرجائیں گے اور قبروں میں ہمارے جسم مٹی ہوجائیں گے اور بکھر جائیں گے۔ جیسا کہ یہ مشاہدہ ہے کہ تمام مردے دفنائے جانے کے کچھ عرصہ بعد اسی طرح ہوتے ہیں۔ شاذو نادر ہی جسم محفوظ رہتے ہیں۔ جب ہم بھی ایسے ہوجائیں گے اور ہمارے آباؤ اجداد بھی ایسے ہی جائیں گے تو کیا ہمیں دوبارہ نکالا جائے گا ، زندہ کیا جائے گا جبکہ ہمارے اجسام کے ذرے مٹی میں مل چکے ہوں گے۔ یہ تو بڑی مسعبد بات ہے۔ وہ یہ بات کرتے ہیں اور مادہ کے بارے میں ان کا جو تصور ہے وہ ان کے لیے حیات اخروی کے تصور کو مشکل بنا رہا ہے لیکن وہ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ ان کو پہلے بھی پیدا کیا گیا اور اس پیدائش سے قبل وہ کچھ بھی نہ تھے۔ کسی کو پتہ نہ تھا کہ اس کے جسم میں جو خلئے اور جو ذرات ہیں اور جن سے ان کی زندگی کا یہ ہیکل بنا ہوا ہے۔ یہ کہاں کہاں سے جمع ہوئے ، یہ زمین کے اطراف اور سمندر کی گہرائیوں میں بکھرے ہوئے تھے اور یا اس کائنات کی فضاؤں میں اڑ رہے تھے۔ زمین سے مٹی لی گئی ، ہواؤں سے ذرات لیے گئے ، پانی کے ذرات کہاں کہاں سے کس کس بادل نے اٹھا کر لائے ، اور بعض ذرات تو سورج سے آئے۔ پھر جو بدستور بذریعہ تنفس ، نباتات نیز ، حیوانات کے دودھ اور گوشت ، پھر بخارات کے ذریعہ جس میں داخل ہوتے ہیں ، پینے کے ذریعے جو چیزیں جسم کا حصہ بنتی ہیں۔ پھر سورک کی گرمی سے جو جسم اثر لیتا ہے۔ یہ سب متفرق چیزیں جن کی تعداد تو صرف اللہ جانتا ہے۔ یہ سب چیزیں انسانی جس میں جمع ہوجاتی ہیں اور یہ انسان اس چھوٹے سے خوردبینی انڈے سے یہاں تک پہنچتا ہے ، اور یہ انڈا رحم مادر کی دیواروں کے ساتھ متعلق ہوتا ہے اور بڑا ہوکر ، مر کر کفن کے اندر یہ سب اجزاء جمع ہوتے ہیں۔ یہ تو ہے اس کی پہلی تخلیق۔ تو اس میں کیا تعجب ہے کہ اس مخلوق کو اللہ قبر سے دوبارہ اٹھالے۔ لیکن وہ لوگ یہ بات بہر حال کرتے تھے اور اس قسم کے لوگوں میں سے بعض آج بھی موجود ہیں جو ایسی ہی باتیں کرتے ہیں۔ وہ یہ باتیں کرتے تھے اور اس کے بعد مزید مزاح اور ناپسندیدگی کے اظہار کے لیے وہ یہ کہتے تھے۔