You are reading a tafsir for the group of verses 27:65 to 27:66
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

قل لا یعلم من فی السموت ۔۔۔۔۔۔ ایان یبعثون (65) بل ادرک علمھم ۔۔۔۔۔ بل ھم منھا عمون (66) (27: 65- 66) “۔

ابتدائے تخلیق سے انسان کو اس خفیہ غیب کا سامنا ہے۔ انسانی علم ایک حد سے آگے نہیں جاسکتا ۔ غیب کے آگے جو پردے لٹک رہے ہیں ان سے وہ آگے نہیں جھانک سکتا۔ یہ مغیبات میں سے صرف اسی قدر علم حاصل کرسکتا ہے جس قدر اللہ تعالیٰ اسے توفیق دیتا ہے اور انسان کے لیے بھلائی اسی میں ہے کہ اللہ نے اسے مستقبل کے علوم غیبیہ سے محروم رکھا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ اس میں انسان کے لیے کوئی خیر دیکھتا تو وہ ضرور اسے عالم غیب کے بارے میں پورا علم عطا کردیتا۔

اللہ نے انسان کو اس قدر قوت اور استعداد دی ہے جس نے ذریعے وہ اس دنیا میں اپنے فرائض بحیثیت خلیفہ اللہ فی الارض پورے کرسکے۔ یہ فرائض کوئی معمولی فرائض نہیں دیں۔ اس سے آگے اللہ نے انسان کو مزید غیبی قوتیں نہیں دیں ۔ اگر انسان کو ایسی قوت دے دی جاتی جس کے ذریعہ وہ مستقبل کے پردوں کو چاک کرکے معلومات حاصل کرسکتا تو اس کے ذریعہ اس کی ان قوتوں میں کوئی اضافہ ممکن نہ تھا۔ جن کے ذریعہ وہ یہاں بطور خلیفہ کام کر رہا ہے۔ بلکہ واقعات مستقطل کے سامنے پردوں کا نصب کرنا ہی دراصل اس شوق علم کے لیے مہمیز کا کام کرتا ہے۔ یوں وہ اپنے طور پر غیوب مستقبل کے لیے نقب زنی کرنے اور کھوج لگانے کی سعی کرتا رہتا ہے۔ اس طرح وہ زمین کے اندر پوشیدہ رازوں کو ڈھونڈتا ہے۔ وہ سمندر کے سینے کو چیرتا ہے۔ وہ آسمان کی فضاؤں میں دور تک دوڑتا ہے۔ وہ اس کائنات کے پوشیدہ رازوں کا انکشاف کرتا ہے۔ اور انسانوں کے لیے بھلائی کے جو راز ہیں ، ان کو وہ دریافت کرتا رہتا ہے۔ وہ زمین سے مواد اور عناصر کی تحلیل کرتا ہے۔ اس کی ترکیب اور شکل و صورت میں کیمیاوی عمل کرتا ہے اور زندگی کی انواع و اقسام اور طرز و طریقوں میں تبدیلیاں لاتا ہے۔ اور اس طرح اس زمین کی تعمیر و ترقی میں نہایت ہی اہم کردار ادا کررہا ہے اور جن ذمہ داریوں کے ساتھ اللہ نے انسان کو منصب خلافت دیا تھا انہیں پوری ذمہ داری کے ساتھ ادا کر رہا ہے

صرف انسان ہی کو علوم غیبہ سے محروم نہیں کیا گیا۔ زمین و آسمان میں جس قدر مخلوق بھی ہے اسے محروم کیا گیا ہے ، خواہ ملائکہ ہیں یا جن ہیں یا دوسری کوئی مخلوق ہے جو اللہ کے علم میں ہے۔ ان سب کو علم غیب نہیں دیا گیا اس لیے کہ ان کو اس کی ضرورت ہی نہ تھی۔ اس لیے تمام غیبی علوم اور واقع ہونے والے حوادث کا علم صرف اللہ کو ہے۔

قل لا یعلم ۔۔۔۔۔ الا اللہ (27: 65) ” کہو ، آسمان اور زمین میں کوئی بھی غیب کا علم نہیں رکھتا ، اللہ کے سوا “ یہ ایک قطعی نص ہے ، اور اس کے ہوتے ہوئے کوئی شخص علم غیب کا دعویٰ نہیں کرسکتا اور نہ اس سلسلے میں اوہان و خرافات پر یقین کرنے کی کوئی گنجائش رہتی ہے۔

غیب کی عمومی نفی کے بعد اب قیام قیامت کی خصوصی نفی کی جاتی ہے۔ کیونکہ عقیدہ توحید کے بعد اہل شرک کے ساتھ مسلمانوں کا بڑا نزاع یہی تھا۔ وما یشعرون ایان یبعثون (27: 65) ” اور وہ تو نہیں جانتے کہ کب اٹھائے جائیں گے “۔ یعنی وہ لوگ جن کی پوجا تم کرتے ہو ، ان کو تو قیامت کا شعور تک نہیں ہے۔ جب ان کو قیامت کا شعور ہی نہیں تو علم کیسے ہوگا تو قیام قیامت ان مغیبات مکیں سے ہے جن کا علم زمین و آسمان میں کسی کو نہیں ہے بلکہ آخرت کے بارے میں ان کا علم ہی بہت محدود ہے

بل ادرک علمھم فی الاخرۃ (27: 66) ” بلکہ آخرت کا تو علم ہی ان سے گم ہوگیا ہے “۔ یہ اپنے حدود میں بہت

دور چلا گیا ہے اور لوگوں کا اس تک پہنچنا دور رہ گیا ہے۔ اور اس کے اور ان کے درمیان پردے حائل ہوگئے ہیں۔

بل ھم فی شک منھا (27: 66) ” بلکہ یہ اس کی طرف سے شک میں ہیں “۔ ان لوگوں کو اس قیامت کے آنے کا یقین نہیں ہے۔ یہ تو دور کی بات ہے کہ ان کو اس کے آنے کے وقت کا کوئی علم ہو یا اسکے وقوع کے بارے میں وہ انتظار کر رہے ہیں

بل ھم فی شک منھا (27: 66) ” بلکہ یہ اس کی طرف سے شک میں ہیں “۔ ان لوگوں کو اس قیامت کے آنے کا یقین نہیں ہے۔ یہ تو دور کی بات ہے کہ ان کو اسکے آنے کے وقت کا کوئی علم ہو یا اس کے وقوع کے بارے میں وہ انتظار کر رہے ہیں

بل ھم منھا عمون (27: 66) ” بلکہ یہ اس سے اندھے ہیں “۔ یعنی وہ تو اس کے بارے میں اندھے ہیں۔ قیامت کے حوالے سے ان کو کوئی چیز نظر ہی نہیں آتی۔ نہ اس کی نوعیت کے بارے میں وہ کچھ یاد کریں گے۔ ان کی یہ دوری پہلی اور دوسری دوری سے بھی زیادہ ہے۔