امن یھدیکم ۔۔۔۔۔۔۔۔ تعلی اللہ عما یشرکون (63)
سب لوگ بحری سفر کرتے ہیں اور ان میں وہ لوگ بھی تھے جو قرآن مجید کے مخاطب اول تھے۔ یہ لوگ بحرو بر کے راستوں میں سفر کرتے ہیں اور انہوں نے بحروبر کی تاریکیوں میں اپنے تجربات اور علم کے مطابق سفر کیے اور کرتے ہیں۔ ان سفروں میں وہ صحیح راستے معلوم کرلیتے ہیں ، وہ کون ہے جو ان سفروں میں انسان کو سیدھے راستے بتاتا ہے ؟ کس نے انسانوں کو یہ عقل و خرد عطا کیا جس کے ذریعے وہ ان راستوں کا ادراک کرتے ہیں۔ ستاروں کے علوم کس نے دئیے ، پھر آلات دریافت کرنے کی قوت کس نے دی۔ اور تجربات و نشانات کس نے بتائے ؟ وہ کون ذات ہے جس نے انسانی فطرت اور فطرت کائنات کے اندر ہم آہنگی پیدا کی۔ اور انسان کے لیے فطرت کائنات تک پہنچنے کی راہ ہموار کی۔ کون ہے جس نے کانوں کے ذریعے انسانوں کو آوازیں معلوم کرنے کی طاقت دی۔ کون ہے جس نے آنکھ کے ذریعے انسان کو دور تک مشاہدے کی طاقت دی۔ اور کون ہے جس نے حواس خمسہ کے ذریعے انسان کو تمام محسوسات معلوم کرنے کی توفیق دی ؟ پھر انسان کو عقل کی طاقت دی جس کے ذریعے انسان حواس سے بھی زیادہ لطیف مدرکات معلوم کرتا ہے۔ پھر حواس کے تجربات سے نتائج اخذ کرنے اور وجدان اور الہام کے ذریعہ حقائق اخذ کرنے کی قوتیں دیں۔ ئ الہ مع اللہ (27: 63) ” کیا ہے اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا الہٰ “۔
ومن یرسل الریح بسرا بین یدی رحمتہ (27: 63) ” اور کون ہے جو اپنی رحمت کے آگے ہواؤں کو خوشخبری دے کر بھیجتا ہے “۔ یہ ہوائیں جن کے فلکی اسباب کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا ہے اور کہا جائے گا لیکن یہ وہ ہیں جو روز اول سے اللہ نے اس کرہ ارض کے ساتھ پیدا کی ہیں۔ اور جس طرح یہ چلتی ہیں روز اول سے ان کے لیے یہی منصوبہ ہے کہ یہ ایک جگہ سے بادلوں کو اپنی دوش پر لے کر چلتی ہیں اور انسانوں کو اس چیز کی خوشخبری دیتی ہیں جو ممد حیات ہے یعنی پانی۔
سوال یہ ہے کہ یہ ہوائیں ، یہ بادل اور یہ بارش کا نظام اپنی موجودہ شکل میں کس نے تخلیق کیا ؟ اور پھر ہوائیں ، ٹھنڈی ہوائیں ، بادلوں اور بارش سے قبل کون بھیجتا ہے۔
ء الہ مع اللہ (27: 63) ” کیا ہے اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا الہٰ “۔
تعالیٰ اللہ عما یشرکون (27: 63) بہت بلند اور بالا ہے اللہ اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں “۔