undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

امن یجیب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قلیلا ما تذکرون (62)

اب ان کے وجدان کو چھوا جاتا ہے۔ ان کے نفس کے اندر موجود خلجانات کو چھڑا جاتا ہے اور ان کی زندگی کے عملی حالات اور اہم واقعات کے دوران ان کے نفس کی کیفیات ان کے سامنے رکھی جاتی ہیں۔ سمندر کے سفر میں جو لوگ نہایت ہی مشکل حالات میں گھر جاتے ہیں اور جہاں ظاہری اسباب ختم ہوجاتے ہیں اور بظاہر مدد کو پہنچنے والا کوئی نہیں رہتا۔ صرف اللہ کی مدد کی امید ہوتی ہے اور تمام سہارے ختم ہوجاتے ہیں۔ انسان ہر طرف نظر دوڑاتا ہے اور کوئی سہارا نہیں ہوتا۔ زمین کی کوئی قوت ان کی مدد کو نہیں پہنچ رہی ہوتی۔ انسان اپنے خیال میں جن قوتوں کے سہارے کے بارے میں سوچتا رہتا تھا ۔ وہ سب قوتیں ایک ایک کرکے اوجھل ہوجاتی ہیں۔ ہر وہ قوت جس سے کچھ بھی توقع تھی وہ جواب دے دیتی ہے۔ ایسے مایوس کن حالات میں پھر انسان کی فطرت جاگ اٹھتی ہے۔ انسان اس قوت کی طرف متوجہ ہوتا ہے ، جو صحیح قوت ہوتی ہے۔ اب انسان اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے حالانکہ اس سے قبل انسان اپنے نارمل حالات میں اللہ کو بھولا ہوا تھا۔ کیونکہ اب تو اللہ ہی ہے جو کسی مجبور شخص کو امداد دیتا ہے جب وہ بےسہارا ہوکر اس پکارتا ہے اور یہ اللہ ہی ہے جو پھر اس کو مشکلات سے نکالتا ہے۔ امن و سلامتی عطا کرتا ہے اور اس مشکل سے نکالتا ہے۔

جب لوگ امن و عافیت اور خوشحالی میں ہوتے ہیں تو وہ غفلت میں ڈوبے ہوتے ہیں۔ وہ ذات باری کو بھول جاتے ہیں۔ پھر وہ زمین کی قوتوں میں کسی قوت سے نصرت و امداد طلب کرتے ہیں ۔ لیکن جب سختی آتی ہے اور انتہائی کرب کے حالات میں وہ گھر جاتے ہیں تو اس وقت غفلت کے پردے اتر جاتے ہیں اور اس وقت وہ گڑ گڑا کر اپنے رب کی طرف لوٹتے ہیں۔ اگرچہ وہ غافل تھے اور ہٹ دھرمی کرنے والے تھے۔

قرآن کریم منکرین اور ہٹ دھرمی کرنے والوں کو اس حقیقت کی طرف متوجہ کرتا ہے ۔ جو خود ان کی فطرت میں ہے۔ یہ بات قرآن کریم ایسے ماحول میں ان کے سامنے پیش کرتا ہے جس میں زمین و آسمان کی تخلیق ، آسمانوں سے پانی کا نزول ، زمین کے اوپر تروتازہ باغ و راغ کی پیدائش ، اس کرہ ارض کا قرار ، اس کے اوپر پہاڑوں کا نصب کرنا اس کے اندر دریاؤں اور نالوں کا چلانا اور بہانا اور سمندر کے اندر دو قسم کے پانیوں کے پردے حائل کرنے کے مناظر پیش کیے گئے ہیں اور پھر سمندر میں ایک مضطرب اور کربناک صورت حال پیش کرکے سمجھا یا گیا کہ ایسے حالات میں تو کوئی شخص بھی اللہ کے سوا کسی کو نہیں پکارتا اور یہ بھی مذکورہ بالا کائناتی خالق کی طرح ایک حقیقت ہے۔ وہ خالق کائناتی تھے اور اس کا تعلق انسان کی نفسیاتی دنیا سے ہے۔

اب ان کی نفسیات کی دنیا سے بھی باہر لاکر ، اللہ تعالیٰ ان کو ان کی زندگی کے ایک عملی حال کی طرف لاتا ہے۔

ویجعلکم خلفاء الارض (27: 62) ” اور تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے “۔ وہ کون ہے جس نے یہاں انسان کو پیدا کیا ، پوری مخلوقات پر فضیلت بخشی۔ اس کے بعد پھر ایک کے بعد دوسرے کو اس زمین کا اقتدار دیتا رہا ، کسی کو زوال ہوا اور دوسرے نے کمال حاصل کیا۔ یہ گرا اور وہ اٹھا۔

کیا یہ اللہ ہی نہی ہے کہ جس نے قوانین قدرت کے مطابق تمہیں اس زمین پر زندگی بخشی اور پھر تمہیں ایسی قوتیں عطا کیں جن کی وجہ سے تم اس کرہ ارض پر اللہ کی خلافت کے مستحق قرار پائے اور پھر تمہیں اس عظیم منصب کے لیے یہاں تیار کیا۔ زمین کو تمہارے لئے جائے قرار بنایا۔ اور اس کی ہر چیز کو تمہاری زندگی کے لیے ممدومعاون اور ہم آہنگ بنایا کہ زمین کو ہر چیز تمہارے لیے ممد حیات بن گئی اور اگر ایسا ہوتا کہ زمین کے اہم عناصر میں سے ایک عنصر غائب کردیا جائے تو تمام انسان کیا تمام زندہ چیزیں ایک دم میں ختم ہوکر رہ جائیں۔ اور آئندہ کے لیے بھی یہاں کسی چیز کا وجود محال ہوجائے۔

سب سے آخر میں یہ بات ہے کہ اللہ ہے وہ ذات جس نے موت وحیات کو پیدا کیا اور ایک نسل کے بعد دوسرے لوگوں کو اٹھایا۔ اگر اللہ اگلی نسلوں کو اسی طرح قائم رکھتا اور آنے والی نسلیں پیدا ہوتی چلی جاتیں تو اس کرہ ارض پر تل دھرنے کی جگہ ہی نہ ہوتی۔ زندگی کا یہ دھارا بہت ہی سست ہوتا۔ انسانی سوچ نہایت سست رفتار ہوتی۔ کیونکہ تازہ تازہ نسلیں وجود میں آنے کے ساتھ تازہ افکار اور تازہ خیالات بھی آتے ہیں۔ لوگ نئے نئے تجربے کرتے ہیں اور زندگی کی جدوجہد میں نئی نجی کوششیں کرتے ہیں۔ زندگی گزارنے کے نئے نئے طریقے دریافت کرتے ہیں اور اب تو صورت یہ ہے کہ پرانے اور نئے لوگوں کی جنگ صرف فکر و شعور کے میدان میں ہوتی ہے۔ اور اگر سابقہ لوگ بھی سب کے سب زندہ ہوتے تو پرانے اور نئے لوگوں کے درمیان جسمانی تصادم بھی ہوتا۔ اور زندگی کی گاڑی آگے بڑھنے کے بجائے باہم تضادات اور تصادمات کا شکار ہوجاتی۔

یہ تمام نفسیاتی حقائق ہیں جس طرح اس سے قبل بیان کیے جانے والے آفاقی حقائق تھے۔ کون ہے جس نے یہ حقائق پیدا کیے ، تمہیں خلیفہ بنایا۔ کوئی ہے اللہ کے سوا ؟ ء الہ مع اللہ (27: 62) ” کیا اللہ کے ساتھ ہے کوئی اور الہ “۔

حقیقت یہ ہے کہ لوگ حقائق کو بھول جاتے ہیں جب سمندر کی مشکلات سے نکلتے ہیں تو سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ ان کی فطرت بھی سو جاتی ہے اور یہ غافل ہوجاتے ہیں حالانکہ خود ان کے نفس اور ان کے اردگرد پھیلی ہوئی کائنات میں حقائق موجود ہیں

قلیلا ما تذکرون (27: 62) ” تم لوگ کم ہی سوچتے ہو “۔ اگر انسان حقائق کو یاد رکھے ، اور ان پر مسلسل غور کرتا رہے ، تو وہ ہمیشہ اللہ کے ساتھ جڑا رہے اور فطرت کی پکار کو سنتا رہے۔ وہ کبھی اپنے رب سے غافل نہ ہو اور کبھی اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے۔

اس کے بعد لوگوں کی زندگی سے بعض اور حقائق پیش کیے جاتے ہیں۔ ان کا تعلق اس کرہ ارض پر لوگوں کی سرگرمیوں سے ہے اور ان کے ان مشاہدات سے ہے جو ہر وقت دہرائے جاتے ہیں۔