امن جعل الارض ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بل اکثرھم لایعلمون (61)
اس کائنات کی پہلی حقیقت اور اس کے بارے میں پہلا سوال جو انسانی ذہن میں پیدا ہوتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ اس کائنات کی تخلیق کیسے ہوئی۔ پھر جب ہم کرہ ارض پر ہیں ، تو اس زمین کا اپنی موجودہ ہیئت پر وجود میں آنا ہمارے لیے ایک اہم سوال ہے۔ پھر یہ کہ اس زمین کو زندگی کا مستقر اور سکون کی جگہ بنایا گیا ہے۔ زمین کو ایسا بنایا گیا ہے کہ اس کے اندر زندگی وجود پا سکتی ہےٗ یہاں اسے سکون ملتا ہے اور نشوونما کے اسباب ملتے ہیں۔ اگر اس زمین کی موجودہ شکل یہ نہ ہوتی اور شمس و قمر کے مقابلے میں اس کے موجودہ فاصلے نہ ہوتے یا اس کا حجم وہ نہ ہوتا جو ہے یا اس کے عناصر اور اس کی فضا میں جو عناصر ہیں وہ نہ ہوتے ، یا زمین کی حرکت اپنے محور کے اردگرد ذرا تیز ہوتی یا سورج کے اردگرد اس کی گردش موجودہ گردش سے زیادہ تیز ہوتی یا چاند کی گردش زمین کے گرد تیز ہوتی۔ یہ اور اس قسم کے دوسرے حالات جو محض اتفاق سے وجود میں نہیں آئے۔ بلکہ ایک مکمل ترتیب اور ہم آہنگی کے ساتھ وجود میں لائے گئے ہیں۔ اگر ان حالات میں سے کسی چیز میں کوئی ادنیٰ سا تغیر بھی آجائے تو یہ زمین ” قرار “ نہ ہوتی اور نہ اس میں انسان یا کوئی اور چیز زندہ رہ سکتی۔
یہ ہو سکتا ہے کہ قرآن کریم کے پہلے مخاطب اللہ کے اس قول سے وہ باتیں نہ سمجھتے ہوں جو ہم سمجھتے ہیں : امن جعل الارض قرار (27: 61) ” کون ہے جس نے زمین کو جائے قرار بنایا “۔ لیکن اس قدر وہ لوگ بھی سمجھتے تھے کہ یہ زمین زندگی کے لیے ایک جائے قرار ہے اور اس کے اوپر زندگی کو ممکن بنایا گیا ہے۔ وہ اس حقیقت کو ذرا اجمال کے ساتھ سمجھتے تھے اور ہم ذرا مزید تفصیلات کے ساتھ سمجھتے ہیں۔ لیکن ان میں سے کوئی مشرک بھی یہ دعویٰ نہ کرسکتا تھا کہ ان کے الہوں میں سے کوئی الہہ تخلیق زمین میں اللہ کے ساتھ شریک ہے۔ پس اس آیت سے ان کے لیے یہ بات کافی تھی اور اس آیت کے معنی کے اندر علم کی وسعت کے ساتھ ساتھ اب تفصیلات کی وسعت پیدا ہوگئی اور ہوتی رہے گی۔ یہ قرآن کریم کے انداز بیان اور طرز استدلال کا معجزہ ہے کہ اس سے سائنسی اعتبار سے پسماندہ سوسائٹی بھی اسی قدر استفادہ کرتی تھی جس طرح زمانوں بعد آج کے ترقی یافتہ لوگ کرتے ہیں۔
امن جعل الارض قرار وجعل خللھا انھرا (27: 61) ” کون ہے جس نے زمین کو جائے قرار بنایا اور اس کے اندر دریا رواں کیے “۔ زمین کے اوپر اللہ نے جو دریا چلا رکھے ہیں وہ دراصل زندگی کے شربان ہیں۔ یہ اس کرہ ارض کی بلندیوں سے مشرق ، مغرب ، شمال اور جنوب کی سمتوں میں چلتے ہیں۔ اور اپنے ساتھ سرسبزی شادابی اور نشوونما لاتے ہیں۔ ان کی تشکیل ان پانیوں سے ہوتی ہے جن کو اللہ تعالیٰ زمین میں جمع فرماتا ہے ، ہر علاقے کے طبیعی حالات کے مطابق ، جس ذات نے اس زمین کو پیدا کیا ، اس نے اس کے منصوبے میں بادلوں کی تشکیل ، بارش کا نظام اور دریاؤں کا بہاؤ رکھا۔ کوئی ہے جو یہ کہہ سکتا ہو کہ اس نظام کی تشکیل میں خالق کائنات کے سوا کوئی اور بی شریک ہے۔ کیا ہم نہیں دیکھتے کہ اس کرہ ارض پر بڑے بڑے دریا بہہ رہے ہیں۔ یہ سوال ایک حقیقی سوال ہے کہ آخر کون ہے جس نے ان دریاؤں کو یوں چلایا اور بہایا۔ کیا ہے کوئی الہہ اللہ کے ساتھ ؟
وجعل لھا رواسی (27: 61) ” اور اس میں پہاڑوں کی میخیں گاڑ دیں “۔ رواسی کے معنی اونچے پہاڑ کے ہیں۔ یہ اپنی جگہ جمے ہوئے اور زمین پر ٹھہرے ہوئے ہیں۔ اور اکثر اوقات ان پہاڑوں ہی سے نہریں نکلتی ہیں۔ جہاں سے بارشوں کے پانی نکل کر دریاؤں کی شکل اختیار کرتے ہیں اور پھر ان دریاؤں کی وجہ سے پہاڑی علاقوں میں شگاف اور گہرائیاں پیدا ہو کر وادیاں بن جاتی ہیں اور اونچے مقامات سے یہ دریا قوت کے ساتھ نشیبی علاقوں کی طرف چلتے ہیں۔ یہاں انداز بیان میں اونچے اور جمے ہوئے پہاڑوں کے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی ندیاں اور دریا دکھائے گئے ہیں۔ قرآن کی تصویر کشی کے اندر یہ طرز ادا عام ہے کہ وہ ایک ہی آیت میں باہم متضاد مناظرو معانی پیش کرتا ہے ۔ یہاں بھی چلتے دریاؤں کے بعد کھڑے پہاڑ دکھائے گئے ہیں۔
وجعل بین البحرین حاجزا (27: 61) ” اور پانی کے دو سمندروں کے درمیان پردے حائل کر دئیے “۔ ایک سمندر سخت نمکین کھارا اور دوسرا میٹھا اور خوشگوار۔ دونوں کو بحرین کہا گیا۔ بطور تغلب کیونکہ دونوں کا مشترکہ مادہ پانی ہے اور دونوں کے درمیان پردہ ایک طبعی پردہ ہوتا ہے۔ اس طرح کہ سمندر کا پانی دریا کے پانی کے ساتھ ملتا نہیں۔ اس طرح اسے کھارا نہیں بنا دیتا۔ اس کی تفصیلات یوں ہیں کہ دریاؤں کی سطح سمندر کی سطح سے قدرے اونچی ہوتی ہے۔ جب دریاؤں کا پانی سمندر میں گرتا ہے تو اس پانی کی سطح سمندر کی سطح سے اونچی ہوتی ہے ۔ یہ دریا پھر سمندر کی سطح کے اوپر دور تک چلتا رہتا ہے۔ سمندر اس کو خراب نہیں کرتا۔ اب اگر دریا کا یہ پانی سمندر کے پانی سے نیچے بھی ہوجائے تو وہ آپس میں ملتے نہیں۔ اس وجہ سے کہ سمندر کا پانی دریا کے پانی کی نسبت زیادہ کثیف ہوتا ہے۔ اس فرق کی وجہ سے دونوں پانی ایک دوسرے کے ساتھ ملتے نہیں ، جدا ہی بہتے ہیں۔ یہ ہے اللہ کی سنت اپنی اس کائنات کے اندر اور اس معجزانہ انداز میں اللہ نے اپنی اس کائنات کو بنایا ہے۔ لہٰذا سوال یہ ہے کہ یہ معجزانہ کام کس نے کیا۔ اللہ کے سوا اور کون ہو سکتا ہے ؟ ء الہ مع اللہ (27: 61) اگر کوئی اللہ کے سوا کسی اور کی بابت ایسا دعویٰ کرسکتا ہے ، تو وہ سامنے آئے۔ اگر نہیں تو اس کائنات کے یہ عجوبے اور یہ منصوبے دلیل ناطق ہیں کہ اس کا ایک خالق ہے اور وہ ایک ہی ہے۔
بل اکثرھم لا یعلمون (27: 61) ” بلکہ ان میں سے اکثر لوگ نادان ہیں “۔ یہاں بھی علم کا ذکر کیا کہ ” بےعلم نتواں خدارا شناخت “۔ اور جس طرح اس سورت کے خلاصہ میں اور پارہ سابق میں ہم نے بتایا تھا کہ اس سورت کا محور ہی علم ہے۔ پوری سورت میں علم کی اہمیت پر زور دیا گیا۔
اب روئے سخن مشاہد کائنات سے خود انسان کی نفسیاتی دنیا کی وادیوں کی طرف پھرجاتا ہے۔