undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

درس نمبر 175 ایک نظر میں

یہ سبق سورة نمل کا خاتمہ ہے۔ درمیان میں حضرت موسیٰ ، حضرت داؤد ، حضرت سلیمان ، حضرت صالح اور حضرت لوط (علیہم السلام) کے قصص سے مختصر کڑیاں لائی گئیں۔ یہ خاتمہ سورت کے آغاز کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ اسی طرح سورت کے مضمون اور موضوع کے ساتھ بھی مربوط ہے۔ اس سورت میں قصص انبیاء میں سے جو کڑیاں لائی گئی ہیں وہ بھی سورت کے آغاذ ، اختتام اور موضوع و مضمون کے ساتھ مربوط ہیں۔ ہر قصہ اس مقصد کو ثابت کرتا ہے جو اس سورت کے پیش نظر ہے۔

یہ سبق اللہ کی حمد کے ساتھ شروع ہوتا ہے۔ اور ان بندگان خدا پر سلامتی بھیجی جاتی ہے جو برگزیدہ ہیں۔ ان میں وہ انبیاء ورسل شامل ہیں جن کے قصے اس سورت میں بیان کیے گئے ہیں۔ اس حمد وسلام کے بعد پھر اسلامی نظریہ حیات اور اسلامی عقیدے کا بیان شروع ہوتا ہے۔ اس میں اس کائنات کے دلائل توحید نفس انسانی کے اندر پائے جانے والے وجدانی دلائل ، بعض غیبی امور اور علامات قیامت اور پھر مشاہد قیامت اور پھر حشر و نشر کے ہولناک لمحات بیان کئے گئے ہیں۔ جن کے اندر زمین و آسمان کی تمام مخلوق خوفزدہ ہوگی الا وہ شخص کہ جسے اللہ بچالے۔

اس سبق میں انسان کو نفس انسانی اور اس کائنات کے کچھ مشاہدات کرائے جاتے ہیں۔ کوئی انسان ان مشاہدات اور ان دلائل کا انکار نہیں کرسکتا۔ اور کوئی شخص بھی ان کی کوئی تشریح اس کے سوا نہیں کرسکتا کہ ایک واحد خالق ذات موجود ہے جو نہایت مدبر اور صاحب قدرت ہے۔

یہ مشاہدات مسلسل اور نہایت موثر ضربات کی شکل میں آتے ہیں اور انسان پر حجت تمام کرتے ہیں ، اس کے شعور کو جگاتے ہیں ، مسلسل سوالات ہیں جن کا جواب حقیقی یہی ہے کہ اللہ کون ہے جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ؟ کون ہے جس نے آسمانوں سے پانی اتارا جس کے ذریعہ ہم نے تروتازہ باغات پیدا کئے ؟ کون ہے جس نے اس زمین کو ٹھہرا رکھا ہے ؟ کون ہے جس نے زمین کے اندر دریا بہائے ؟ کون ہے جس نے زمین میں اونچے اونچے پہاڑ کھڑے کیے ؟ کون ہے جس نے دو دریاؤں اور سمندروں کے درمیان پر دے کھڑے کیے۔ کون ہے جو ایک مضطرب شخص کی پکار سنتا ہے اور اس کی تکلیف دور کرتا ہے ؟ کون ہے جو تمہیں زمین کے اندر اقتدار دے کر خلیفہ بناتا ہے ؟ یہ بحروبر کی ظلمات میں تمہیں راہ دکھانے والا کون ہے ؟ پھر اپنی رحمت (بارش) سے قبل ٹھنڈی ہوا کون بھیجتا ہے ؟ کون ہے جس نے یہ تخلیق کی اور پھر دوبارہ تخلیق کرے گا ؟ کون ہے جو تمہیں آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے ؟ یہ سوالات مسلسل آتے ہیں اور ہر سوال کے بعد پھر ان کو جھنجھوڑا جاتا ہے کہ آیا ہے کوئی الٰہ اللہ کے سوا ؟ چناچہ کوئی معقول شخص یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ کوئی الٰہ اللہ کے ساتھ اور بھی ہے۔ کوئی ایسا دعویٰ نہیں کرسکتا لیکن اس کے باوجود ان کا طرز عمل یہ ہے کہ وہ اللہ کے سوا اور معبودوں کی بندگی کرتے ہیں۔

یہ ضربات جو براہ راست انسان کے دل پر پڑتی ہیں۔ اس لیے کہ یہ اس کائنات کی کھلی کتاب کے صفحات ہیں اور یہ ان کا شعوری وجدان ہے جسے وہ محسوس کرتے ہیں۔ لیکن یہ لوگ پھر بھی آخرت کی تکذیب کرتے ہیں اور آخرت کے معاملے میں یہ لوگ نہایت التباس کا شکار ہیں۔ چناچہ ان کو متوجہ کیا جاتا ہے کہ امم سابقہ نے بھی اسی طرح تکذیب کی تھی تو اللہ نے ان کو ہلاک کردیا تھا۔ یہاں سے بات پھر حشرونشر کے ہولناک مناظر کی طرف لوٹ کر آتی ہے۔ دیکھئے ہر لمحے میں قارئین پھر دنیا کے اندر آجاتے ہیں اور دوبارہ مشاہد قیامت نہایت ہی خوفناک انداز میں آتے ہیں۔ یوں انسانی دلوں کو ہلا مارا جاتا ہے اور ان کو خوب جھنجھوڑا جاتا ہے۔

اس سبق کے آخر میں ایک زبردست چوٹ لگائی جاتی ہے ، جس طرح کوئی آخری بات کرتا ہے اور خوفناک نتائج سے خبردار کرکے اور آخری وارننگ دے کر اٹھ کر چلا جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ سے یہ کہا جاتا ہے کہ آپ ﷺ اب ان مزاح کرنے والوں اور آخرت کا انکار کرنے والوں کو اپنے حال پر چھوڑ دیں۔ آپ ﷺ نے ان کو دلائل تکوینی کی طرف بھی متوجہ کردیا۔ قیامت کے ہولناک مناظر بھی پیش کر دئیے ۔ پس اب چھوڑ دئیے جائیں یہ لوگ تاکہ وہ اپنے فطری انجام تک پہنچ جائیں۔ کیونکہ انہوں نے اس انجام کو اپنے لیے خود پسند کیا ہے اور ان کو بتا دیا جاتا ہے کہ رسول ﷺ کے ذمہ جو کام ہے وہ محدود اور متعین ہے۔ اور رسول کے پاس جو ذرائع ہیں وہ محدود ہیں کیونکہ ڈرانے کے بعد اختیار ان کا ہے کہ وہ راہ راست کو اختیار کریں یا نہ۔

آیت نمبر 91 تا 92

” اے نبی ﷺ کہو مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ اس شہر کے رب کی بندگی کروں جس نے اسے حرم بنایا ہے اور جو ہر چیز کا مالک ہے۔ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مسلم بن کر رہوں اور یہ قرآن پڑھ کر سناؤں جو ہدایت اختیار کرے گا وہ اپنے ہی بھلے کے لئے ہدایت اختیار کرے گا اور جو گمراہ ہو اس سے کہہ دو کہ میں تو بس خبردار کرنے والا ہوں “۔

اور یہ سبق اسی مضمون پر ختم ہوتا ہے جس کے ساتھ اس کا آغاز ہوا تھا۔ یعنی صرف اللہ کی حمد جس کا وہ اہل ہے۔ ان لوگوں کو اللہ کے سپرد کردیا جاتا ہے جو ان کو اپنی نشانیاں دکھاتا ہے اور جو ان کے اعمال سے اچھی طرح باخبر ہے خواہ ظاہر ہوں یا باطن۔

آیت نمبر 93

” ان سے کہو تعریف اللہ ہی کے لئے ہے۔ وہ عنقریب تمہیں اپنی ۔۔۔۔۔ دکھا دے گا اور تم انہیں پہچان لوگے اور تیرا رب بیخبر نہیں ہے ، ان اعمال سے جو تم لوگ کرتے ہو “۔

درس نمبر 175 تشریح آیات

60 ۔۔۔۔ تا ۔۔۔ 93

آیت نمبر 59

اللہ تعالیٰ رسول اللہ ﷺ کو وہ کلمات سکھاتا ہے جن کے ساتھ ہر مومن کو اپنے کلام کا آغاز کرنا بھی ایسے ہی کلمات پر ہونا چاہئے۔ وقل الحمد للہ سیریکم ” کہو سب تعریف اللہ کے لئے ہے عنقریب وہ تمہیں دکھائے گا۔۔۔ “۔ اللہ نے اپنے بندوں پر جو انعامات کیے ہیں ان کی وجہ سے اللہ مستحق ہے کہ وہ اس کی تعریفیں کرتے ہیں اور اللہ کی نعمتوں میں سے بڑی نعمت یہ ہے کہ اس نے انسانوں کو صحیح راہ دکھائی۔ وہ نظام جس کے مطابق انسانوں نے زندگی گزارنی ہے۔ وسلم علی عبادہ الذین اصطفی (72: 59) ” اور سلام اس کے ان بندوں کے لیے جنہیں ان نے برگزیدہ کیا “۔ یعنی اپنی رسالت کے لیے دعوت کے لئے اور اسلامی نظام زندگی کی تبلیغ اور اقامت کے لیے۔

اس افتتاح کے بعد اب مشرکین پر حملے شروع ہوتے ہیں اور ان کو خوب ضربات لگائی جاتی ہیں۔ ان دلوں کو جھنجھوڑا جاتا ہے جو آیات الٰہیہ کا انکار کرتے ہیں۔ آغاز ایسے سوال سے کیا جاتا ہے جس کا صرف ایک ہی جواب ہے۔ اس سو سال کے ذریعے ان پر تنقید کی جاتی ہے کہ وہ اللہ کے ساتھ دوسرے الٰہ ٹھہراتے ہیں۔ اللہ خیر اما یشرکون (27: 59) ” اللہ بہتر ہے یا وہ معبود جنہیں یہ لوگ اس کا شریک بناتے ہیں “۔

یہ جن لوگوں کو شریک بناتے ہیں وہ بت ہیں یا آستانے ہیں یا ملائکہ ہیں اور یا جن ہیں اور یہ سب چیزیں اللہ کی مخلوق ہیں یا ان کے علاوہ کسی اور مخلوق کو یہ شریک کرتے ہیں۔ بہر حال ان کے معبود ان باطل کسی حالت میں اللہ کے ہم پلہ نہیں ہوسکتے ، چہ جائیکہ وہ اللہ سے بہتر ہوجائیں۔ کوئی عقلمند آدمی ان معبودوں اور اللہ کے درمیان کوئی موازنہ نہیں کرسکتا ۔ یہ سوال اپنے ان الفاظ میں گویا ان کے ساتھ ایک خوبصورت مزاح ہے اور ایک طرح کی تہدید اور توبیخ بھی ہے ، کیونکہ کوئی شخص اس قسم کا سوال سنجیدگی سے نہیں کرسکتا۔ یہ اس سوال کا جواب طلب کیا جاسکتا ہے۔ چناچہ جواب کے انتظار سے بھی پہلے دوسرا سوال کردیا جاتا ہے اور یہ سوال انسانوں کے اردگرد پھیلی ہوئی اس کائنات کے بارے میں ہے ، جس کی بو قلمونیوں کو وہ رات دن مشاہدہ کرتے ہیں