قالوا اطیرنا بک وبمن معک ط
تطسیر کے معنی بدشگونی کے ہیں۔ یہ لفظ اقوام جاہلہ کی وہم پرستیوں اور خرافات سے نکلا ہے۔ وہ اوبام جن سے کوئی شخص صرف سیدھے اور صاف ایمان کے ذریعے نکل سکتا ہے۔ ایام جاہلیت میں اگر کوئی کسی کام کے لئے نکلنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ نیک شگون یا بدشگون معلوم کرنے کے لئے کسی پرندے سے فال گیری کرتا ہے۔ وہ کسی جگہ بیٹھے ہوئے پرندے کو اڑاتا۔ اگر یہ پرندہ اس کے دائیں جانب سے بائیں جانب جاتا تو یہ خوش ہوتا اور وہ کام کر گزرتا۔ اور اگر یہ پرندہ بائیں جانب سے دائیں جانب کی طرف جاتا تو یہ شخص بدشگوفی کرتے ہوئے یہ سمجھتا کہ یہ معاملہ خطرناک ہے۔ سوال یہ ہے کہ کسی پرندے کو لیا معلوم ہے کہ وہ کدھر جائے اور کدھر نہ جائے۔ نیز کسی پرندے کی اتفاق حرکت سے غیبی باتیں کس طرح معلوم ہو سکتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نفس انسانی اپنے معاملات ہمیشہ کسی غیبی قوت کے حوالے کرتا ہے۔ اگر کوئی اپنا غیب اور مستقبل اللہ علام الغیوب کے حوالے نہیں کرتا اور اللہ پر بھروسہ نہیں کرتا تو پھر وہ ایسے ہی اوہام و خرافات کا شکار ہوتا ہے۔ پھر وہ اوبام و خرافات کسی حد پر جا کر رکتے نہیں۔ نہ عقل کی حدود میں رہتے ہیں۔ نہ ان سے کوئی یقین و اطمینان حاصل ہوتا ہے۔
آج صورت حال ایسی ہے جو لوگ ایمان نہیں لاتے اور عالم غیب کے پوشیدہ امور کو اللہ کے سپرد کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں اور جن کا زعم یہ ہے کہ انہوں نے اس قدر علمی ترقی حاصل کرلی ہے کہ دین و مذاہب کے خرافات پر ایمان لانا ضروری نہیں ہے۔ یہ لوگ نہ اللہ پر ایمان لاتے ہیں ، نہ دین اسلام پر ایمان لاتے ہیں اور نہ غیب پر ایمان لاتے ہیں ، لیکن ایسے تعلیم یافتہ لوگوں کی وہم پرستی کا حال یہ ہے کہ یہ لوگ بھی عدد 31 کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ اور جب یہ لوگ جا رہے ہوں اور کوء سیاہ بلی ان کے راستے سے گزر جائے تو اس کو بھی نہایت ہی اہم واقعہ سمجھتے ہیں۔ مثلاًدیا سلائی کی ایک پتلی سے دو سے زیادہ سگریٹ جلانا اور اس قسم کے دور سے خرافات پر یہ لوگ بڑا یقین رکھتے ہیں۔ یہ اس لئے کہ اس قسم کے لوگ دراصل فطرت سے عناد کرتے ہیں حالانکہ فطرت سلیمہ کے اندر ایمان باللہ کو پیاس ہوتی ہے۔ وہ اللہ سے کبھی بھی مستغنی نہیں ہوتی۔
اس دنیا کے حقائق میں اسے عالم غیب کا سہارا لینا پڑتا ہے ، جن تک انسانی علم و معرفت کی رسائی نہیں ہوتی اور بعض حقائق تو ایسے ہیں کہ ان تک انسانی علم کبھی بھی نہیں پہنچ سکتا ۔ کیونکہ یہ حقائق انسان کی قوت مدرکہ کی حدود طاقت ہی سے ماوراء ہیں اور جو انسان کے مخصوص مقصد پیدائش او خلافت فی الارض کے منصب کے ساتھ متعلق ہی نہیں ہیں۔ اس لئے انسان کو ان کے علم کی طاقت ہی نہیں دی گئی۔ انسانی قوتیں اس کے منصب تک محدود ہیں۔
جب قوم صالح نے اپنی وہی بدویانہ اور گمراہانہ بات کہی ، جو اوہام و خرافات کے اندر ڈوبی ہوئی تھی تو حضرت صالح نے ان کو یقین کی روشنی کی طرف موڑ دیا اور ایک واضح حقیقت کی دعوت دی جس کے اندر کوئی پیچیدگی اور کوئی تاریک گوشہ نہ تھا۔
قال طئرکم عند اللہ
صالح نے جواب دیا تمہارا نیک و بد اور تمہارا انجام اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ نے اس کائنات کے لئے ایک سنت جاری کی ہے اور پھر لوگوں کو کچھ احکام دیئے ہیں اور لوگوں کے لئے ایک نہایت ہی سیدھی راہ تجویز کی ہے۔ پس جس نے سنن الہیہ کا اتباع کیا ، اللہ کی ہدایات پر چلا تو اس کا انجام اچھا ہوگا اور اسے پرندے اڑانے کی کوئی ضرورت نہ ہوگی ، اور جو شخص سنن الہیہ سے سرتابی کرے گا اور صحیح راستے سے ادھر ادھر ہوجائے گا وہ ایک عظیم شر سے دوچار ہوگا۔ اسے پھر پرندوں سے نیک شگون اور بدشگون لینے کی ضرورت نہ ہوگی۔
بل انتم قوم تقنتون (74)
” اصل بات یہ ہے کہ تم لوگوں کی آزمائش ہو رہی ہے۔ “ اللہ نے تم پر جو انعامات کئے ہوئے ہیں۔ یہ تمہارے لئے ایک فتنہ ہے اور جو خیر و شر تمہیں پیش آ رہا ہے۔ وہ تمہارے لئے آزمائش ہے۔ لہٰذا بیداری ، اللہ کے قوانین فطرت کے مطابق تدبیر اور واقعات و حادثات کو سمجھنا اور ان کے اندر جو آزمائش اور ابتلا ہوتی ہے ، اس کا ادراک کرنا اور شعور رکھنا ہی اچھے انجام کا ضامن ہے۔ یہ جو تم پرندوں کو اڑا کر شگون یا بدشگون معلوم کرتے ہو ، اس کا واقعات کے انجام پر کوئی اثر نہیں ہوتا ، یہ محض تمہارے اوہام ہیں۔
ایک صحیح نظریہ اور عقیدہ لوگوں کو ذہنی روشنی اور استقامت عطا کرتا ہے اور انسان معاملات کی صحیح قدر معلوم کرلیتا ہے۔ انسان کا دل بیدار ہوتا ہے اور وہ اپنے ماحول پر اچھی نظر رکھتا ہے اور غور و فکر کرتا ہے۔ انسان کو یہ شعور ہوتا ہے کہ اس کے اردگرد جو کچھ ہو رہا ہے دست قدرت اس میں موثر ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ دنیا میں یہ واقعات یونہی اتفاقاً واقع نہیں ہوتے ، نہ یہ زندگی ایک عبث عمل ہے بلکہ انسان کی زندگی بامقصد ہوتی ہے ، وہ ایک قیمت رکھتی ہے۔ لوگوں کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ اور یوں یہ چھوٹا سا انسان اس کرہ ارض پر ایک بامقصد سفر کرتا ہے۔ وہ اللہ سے بھی مربوط ہوتا ہے اور اللہ کی اس کائنات کے ساتھ بھی جڑا ہوا ہوتا ہے اور ان قوانین کے ساتھ بھی جڑا ہوا ہوتا ہے۔ جو خالق نے اس کائنات کے لئے وضع کئے ہیں اور جن کے مطابق یہ کائنات بحفاظت چل رہی ہے۔
لیکن یہ سادہ سادہ استدلال ان لوگوں پر کیا اثر کرتا جن کے قلوب بگڑ چکے ہوں۔ ان کے دل اس قدر فساد میں مبتلا ہوئے ہوں جہاں سے واپسی ممکن نہ ہو۔ اصلاح کا کوئی امکان نہ رہا ہو۔ قوم صالح بگاڑ کے اس مرحلے پر پہنچ گئی تھی جہاں سے واپسی ممکن نہ تھی۔ ان میں 9 افراد ایسے تھے جو پوری بگاڑ کے ذمہ دار تھے۔ یہ لوگ فساد کی آخری سرحدوں کو چھو رہے تھے چناچہ انہوں نے اس تحریک کو ختم کرنے کے لئے ایسی سازش تیار کی جس پر رات کے اندھیروں میں عمل کیا جانا تھا۔