درس نمبر 371 تشریح آیات
54……تا……35
قرآن کریم میں حضرت صالح اور قوم ثمود کا قصہ بالعموم حضرت نوح ، حضرت ہود ، حضرت لوط اور حضرت شعیب (علیہم السلام) کے قصص کے ساتھ آتا ہے۔ ان قصص کے ساتھ حضرت ابراہیم کا قصہ کبھی آتا ہے اور کبھی نہیں آتا۔ اس سورة میں بھی بنی اسرائیل کے قصص آئے ہیں۔ حضرت موسیٰ اور حضرت دائود اور حضرت سلیمان کے قصے گزر گئے ہیں۔
ہیاں بھی حضرت ہود اور حضرت شعیب کا قصہ مختصراً آیا ہے جبکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ نہیں آیا۔
حضرت صالح کے قصے میں ناقہ والی کڑی نہیں ہے بلکہ اس کے بجائے 9 مفسدین کا ذکر ہے جو حضرت صالح کے خلاف سازشیں کرتے تھے۔ حضرت صالح کو ان کی مکاریوں کا علم نہ تھا۔ ان کی ان سازشوں کے جواب میں اللہ نے ان کے خلاف ایسی تدبیر اختیار کی جس کا وہ سوچ بھی نہ سکتے تھے۔ وہ یہ کہ ان سب مفسدوں کو تباہ کر کے رکھ دیا اور حضرت صالح اور اہل ایمان کو نجات دے دی۔ مشرکین مکہ کو کہا جاتا ہے کہ تم اپنی آنکھوں سے ان کے مکانات کو دیکھتے ہو مگر عبرت نہیں پکڑتے۔
ولقد ……یختصمون (54)
حضرت صالح کی رسالت کا خلاصہ صرف یہ ہے کہ ” صرف اللہ کی بندگی کرو۔ “ ہر دور میں انسانوں کو جو سماوی ہدایت دی گئی ہے اس کا خلاصہ یہی رہا ہے کہ صرف اللہ وحدہ کی بندگی رو ، ہر رسول اور ہر قوم کو یہی تعلیم دی گئی جبکہ اس کائنات میں انسانوں کے اردگرد پائی جانے والی کائنات میں اور خود انسانوں کے نفوس کے اندر بھی وجدانی دلائل موجود ہیں جو یہی حقیقت بتاتے ہیں کہ اس کائنات کا معبود ایک ہی ہے۔ لیکن انسان ہے کہ وہ اس سادہ حقیقت کا انکار کرتا ہے۔ نہ صرف انکار بلکہ وہ اس دعوت کے ساتھ مذاق بھی کرتا ہے۔ اور حقارت آمیز انداز میں اسے ٹھکراتا ہے اور آج تک انسان بھٹک رہا ہے ۔ مختلف راستوں پہ چلتا ہے ، ٹھوکریں کھاتا ہے لیکن صراط مستقیم کی طرف نہیں آتا۔
یہاں قرآن کریم نے حضرت صالح کی دعوت کا صرف یہ اثر بتایا ہے کہ قوم دو ٹکڑے ہوگئی اور ان کے درمیان مخاصمت شروع ہوگئی۔ ایک فریق نے دعوت قبول کرلی اور دوسرا مخالف ہوگیا۔ فریق ، تعداد میں بہت زیادہ تھا جیسا کہ قرآن کریم کی دوسری سورتوں سے ظاہر ہے۔
یہاں قصے کے اختصار کی وجہ سے خلا ہے۔ اس میں قوم نے حضرت صالح سے مطالبہ کیا ہے کہ تم ہمیں جس عذاب سے ڈراتے ہو ، اسے لے آئو۔ منکرین کا ہمیشہ یہ طریقہ ہوتا ہے کہ وہ ہدایت و رحمت طلب کرنے کی بجائے اللہ کا عذاب طلب کرتے ہیں جس طرح مشرکین قریش نبی ﷺ سے مطالبہ کرتے تھے۔ حضرت صالح نے انہیں تنبیہ کی کہ تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم رحمت و ہدایت طلب کرنے کی بجائے خدا کا عذاب طلب کرتے ہو۔ وہ ان کو مشورہ دیتے ہیں اللہ سے مغفرت طلب کرو وہ تم پر رحم کر دے گا۔