undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

ان الذین ……یعمھون (4)

حقیقت یہ ہے کہ آخرت پر ایمان وہ قوت ہے جو اس دنیا میں انسانی خواہشات ، اس کے جذبات کو دباتی ہے اور ان کو اعتدال اور توازن بخشتی ہے۔ جو شخص ایمان نہیں رکھتا وہ اپنی کسی خواہش اور کسی میلان کو دبانے کی طاقت اور اخلاقی قوت ہی نہیں رکھتا وہ تو یہ سمجھتا ہے کہ بابر بعیش کوش کو عالم دوبارہ نیست اور اس عالم میں زندگی بھی مختصر ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ اگر ہم نے اس دنیا میں کوئی عیش اور کوئی لذت ترک کردی یا ہم حاصل نہ کرسکے تو اس زندگی میں ایک منٹ کی توسیع ہوجائے۔ جب سوچ یہ ہوجائے تو کسی کو عیش و عشرت اور لذات و رغبات کے ہاتھوں کون چھڑا سکتا ہے۔ الا یہ کہ وہ اللہ کے سامنے کھڑ آجانے کا ایمان اپنے اندر پیدا کر دے۔ قیامت کے دن کے ثواب اور اجر کا امیدوار ہو اور آخرت کی سزائے خائف ہو جہاں تمام لوگ کھڑے ہوں گے۔

لہٰذا جن لوگوں کا آخرت پر ایمان نہیں ہوتا ان کے لئے ہر قسم کی شہوات اور لذات کو خوبصورت بنا دیا جاتا ہے۔ وہ بغیر خوف خدا ، بغیر خوف آخرت اور پھر بلاشرم و حیا ان کے پیچھے کتوں کی طرح بھاگتے ہیں۔ نفس کی فطرت اور پیدائش اس پر ہے کہ یہ لذت کا دلدادہ ہے۔ یہ حسن پرست اور جمال پر مٹنے والا ہے۔ الایہ کہ اسے آیات الہیہ اور رسول ان کریم کی راہنمائی نصیب ہوجائے اور وہ اسے دائرہ ایمان کے اندر لے آئیں اور وہ سمجھ لے کہ یہ جہاں تو فانی ہے۔ جب کوء نفس یہاں تک پہنچ جائے تو اس کے اعمال کا رنگ بدل جاتا ہے۔ اس کا عالم اشواق بدل جاتا ہے۔ اسے پھر اچھے کاموں میں اسی طرح لذت آتی ہے جس طرح مادی لذت ہوتی ہے بلکہ پیٹ اور جسم کی لذت پھر اسے نہایت ہی حقیر و قلیل نظر آنے لگتی ہے۔

یہ اللہ ہی ہے جس نے انسان کو ایسا پیدا کیا ہے۔ اسے اس قابل بتایا ہے کہ اگر اس کا دل ہدایت کے لئے کھل جائے تو وہراہ ہدایت پا سکے۔ اور اگر اس کا دل بجھ جائے اور شمع ایمان گل کردی جائے تو پھر وہ گمراہی کی راہ پر سرپٹ دوڑتا ہے۔ پھر اس انسانیت کی ہدایت پر ضلالت کے لئے اس نے ایک سنت بھی جاری کردی ہے اور اس کے مطابق وہ ہدایت پاتا ہے یا راہ ضلالت اختیار کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم یہ صراحت کردیتا ہے اور خدا اسے اپنا فعل بتاتا ہے کہ وہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے۔

ربنا لھم اعمالھم فھم یعمھون (82 : 3) ” ہم نے ان کے کرتوتوں کو ان کے لئے خوشنما بنا دیا ہے ، اس لئے وہ بھٹکتے پھرتے ہیں۔ “ چونک وہ آخرت پر ایمان نہیں لاتے ، اس لئے اس پر اللہ کی سنت کا نفاذ ہوجاتا ہے اور اس طرح ان کے اعمال اور ان کی لذات اور خواہشات ان کے لئے خوشنما بنا دی جاتی ہیں۔ یہاں تزئین اعمال یعنی اعمال کو مزید بنانے کا مفہوم یہ ہے کہ یہ اس طرح بھٹکتے ہیں کہ جس شہر میں یہ لوگ مبتلا ہوتے ہیں اس شہر نہیں سمجھتے۔ اس لئے یہ شر کے چکر میں رات دن بڑے ہوئے ہوتے ہیں لیکن ان کو اس کا شعور ہرگز نہیں ہوتا۔

اور جس شخص کے لئے شر کو مزین کردیا گیا ہو اس کا انجام سب کو معلوم ہے۔