You are reading a tafsir for the group of verses 27:36 to 27:39
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

فلما جآء ……صغرون (73)

ان لوگوں کے ہدایا کو رد کرتے وقت حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے دولت کی حقارت کا اظہار بھی کیا۔ ان کو بتایا گیا کہ دولت کی اہمیت اپنی جگہ ہے لیکن نظریات اور ایمانیات کے مقابلہ میں دولت ایک حقیر چیز ہوتی ہے۔

اتمدونن بمال (82 : 63) ” کیا تم مال سے میری مدد کرنا چاہتے ہو۔ “ کیا تم یہ حقیر چیز میرے سامنے پیش کرتے ہوے اور میری اس قدر کم قیمت لگاتے ہو۔

فما اتن اللہ خیر مما اتکم (82 : 63) ” جو کچھ خدا نے مجھے دے رکھا ہے وہ اس سے بہت زیادہ ہے جو تمہیں دیا ہے۔ “ مجھے مال بھی تم سے زیادہ دیا ہے اوپر منصب نبوت بھی دیا ہے جو جنس مال سے خیر ہے۔ علم نبوت جو بڑی دولت ہے۔ انسانوں ، جنوں اور طیور کی تسخیر جو روپے کے ذریعے نہیں کی جاسکتی۔ لہٰذا اس زمین کی کوئی چیز مجھے خوش نہیں کرسکتی۔

بل انتم بھدیتکم تفرحون (82 : 63) ” تمہارا یہ ہدیہ تمہیں مبارک ہو۔ “ تم دنیا پرست لوگ ایسی چیزوں پر خوش ہوتے ہو ، لیکن ہمارے نزدیک ان کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ ہم تو اللہ سے لو لگائے ہوئے ہیں اور اللہ کے ہدایا قبول کرتے ہیں۔

اس کے بعد انہیں سخت تہدید آمیز جواب دیا جاتا ہے۔

ارجع الیھم (82 : 83) ” واپس جا اپنے بھیجنے والے کی طرف۔ “ یہ ہدایا ان کو دو اور عبرت آمیز انجام کو انتظار کرو۔

فلنا تینھم بجنودلا قبل لھم بھا (62 : 83) ” ہم ان پر ایسے لشکر لے کر آئیں گے جن کا مقابلہ وہ نہ کرسکیں گے۔ “ یہ ایسی افواج ہیں جو دنیا کے کسی انسان کے پاس نہیں ہیں اور ملکہ سبا اور اس کی قوم ہماری افواج کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔

ولنخر جنھم منھا اذلۃ و ھم صغرون (82 : 83) ” اور ہم انہیں ایسی ذلت کے ساتھ وہاں سے نکالیں گے کہ وہ خوار ہو کر رہ جائیں گے۔ “ اب یہاں پر وہ گرتا ہے اور یہ چیلنج اور تہدید کا منظر ختم ہوجاتا ہے۔ سفارت واپس ہوجاتی ہے۔ اب سیاق کلام یہاں ختم ہوجاتا ہے۔ اگلے اقدام کے بارے میں یہاں ایک لفظ بھی نہیں کہا جاتا ہے۔

حضرت سلیمان یہ جانتے ہیں کہ ملکہ کے ساتھ معاملہ ختم ہوگیا ، وہ نہ مقابلہ کرسکتی ہے۔ نہ دشمنی چاہتی ہے۔ کیونکہ ہدایا کے ساتھ سفارت بھیجنے کا مقصد ہی یہ تھا۔ حضرت سلیمان جان گئے کہ یہ ملکہ مطابق حکم سلیمان دعوت قبول کرے گی اور اطاعت کرلے گی جیسا کہ بعد کے حالات بتاتے ہیں کہ ایسا ہی ہوا۔

لیکن سیاقکلام میں یہ بات نہیں ہے کہ یہ سفارت واپس ہوئی ۔ اس نے ملکہ کے سامنے یہ یہ رپورٹ پیش کی۔ نہ سیاق کلام میں ملکہ کے اگلے ارادے کا ذکر ہے۔ یہ سب خود بخود معلوم ہوجائیں گے جب ملکہ کا دورہ دار الخلافہ معلوم ہوگا اب حضرت سیمان علیہ ال سلام یہ حکم دیتے ہیں کہ کون ہے جو ملکہ کے پہنچنے سے قبل ہی اس کے عرش کو لے کر آجائے اور پھر اس عرش اور تخت کو اس کے سامنے ذرا انجان ہو کر پیش کیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ عرش وہ اپنے علاقے میں چھوڑ کر آئی ہے اور یہ وہاں اس کے دارالخلافہ میں محفوظ و مامون ہے۔