قالت ……مسلمین (13)
وہ اپنی شوریٰ کو بتاتی ہے کہ اس کے دربار میں یہ خط پھینکا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے معلوم نہیں ہے کہ یہ خط پھینکا کس نے ہے اور کس طرح پھینکا ہے۔ اگر اسے معلوم ہوتا کہ اسے ہد ہد نے پھینکا ہے جیسا کہ بعض مفسرین نے کہا ہے تو وہ اس کا اعلان کردیتی ہے۔ کیونکہ یہ ایک اور عجیب بات ہوتی اور یہ بات روزانہ کے معجزات تو تھے نہیں کہ ہد ہد خط پھینکتا تھا ، چونکہ اسنے صیغہ مجہول استعمال کیا ہے اور اللہ نے نقل کیا ہے لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ اسے معلوم نہ تھا کہ خط پھینکنے والا کون ہے۔
ملکہ اسے ایک معزز خط ” کتاب کریم “ کہتی ہے۔ شاید اس خط کے انداز تحریر ، اس کی مہر اور اس کے طریقہ تلخیف کی وجہ سے اس نے معلوم کیا ہو کہ یہ کوئی غیر معملوی خط ہے۔ نیز جب اس کے مضون سے اپنے مشیروں کو آگاہ کیا تو اس سے بھی اس کے دل میں اس خط کی مزید اہمیت بیٹھ گئی۔ جس کا مضمون یہ تھا۔
انہ من سلیمن ……اتونی مسلمین (82 : 13) ” یہ خط لیمان کی طرف سے ہے اور یہ بسم اللہ الرحمن الرحیم سے شروع کیا گیا ہے اور مضمون یہ ہے ” میرے مقابلے میں سرکشی نہ کرو اور مسلم ہو کر میرے پاس حاضر ہو جائو۔ “ یہ مسلمان تو نہ تھی لیکن سلمیان (علیہ السلام) کی حکومت کا نشرو اس علاقے میں عام تھا۔ قرآن کریم نے اس خط کے الفاظ کو جس طرح نقل کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دو ٹوک اور نہایت ہی رعب دار اور خوفناک مضمون کا خط تھا۔ اسی وجہ سے اس نے اسے کتاب کریم کہا۔
خط کا مضمون نہایت ہی سادہ ہے اور نہایت ہی پرتاثیر آغاز بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سے ہے اور مضمون صرف یہ ہے کہ میرے مقابلے میں سرکشی نہ کرو اور میرے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہوئے حاضر ہو جائو۔ میرے سامنے نہیں بلکہ اللہ کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہوئے اور مسلمان بن کر آ جائو۔
ملکہ نے یہ کتاب اور یہ خط اپنے اہل حل و عقد کے سامنے رکھا اور ان سے اس کے بارے میں مشورہ طلب کیا۔ وہ کہتی ہے کہ میں کسی معاملے میں بھی تمہارے مشورے سے قبل فیصلہ نہیں کرتی۔ تمہاری رضامندی سے اور تمہارے اتفاق رائے سے سب کچھ ہوتا ہے۔
0%