وحشر ……یوزعون (71)
یہ تھا حضرت سلیمان کا لشکر۔ بہت بڑی تعداد میں ہر طرف سے اٹھایا ہوا۔ جن انس اور پرندوں پر مشتمل۔ انسان تو معلوم ہیں ، جن وہ مخلوق ہے جس کے بارے میں خود قرآن نے معلومات دی ہیں اور ان کی حقیقت کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ وہ آگ کے شعلے سے پیدا شدہ ہیں۔ یعنی ایسے شعلے جو موجوں کی شکل میں اٹھتے ہیں۔ بشر ان کو نہیں دیکھ سکتے مگر وہ بشر کو دیکھ سکتے ہیں۔
انہ یراکم و قبیلہ من حیث لاترونھم ” وہ اور اس کا قبیلہ تمہیں دیکھتا ہے مگر تم اسے نہیں دیکھتے۔ “ یہ آیت اگرچہ ابلیس کے بارے میں ہے لیکن وہ جنوں میں سے تھا۔ پھر ان جنوں کے اندر یہ قوت ہے کہ یہ انسانوں کے دلوں میں برائی کے وسوسے ڈالتے ہیں اور پھر یہ انسانوں کو اللہ کی معصیت پر آمادہ کرتے ہیں ۔ لیکن اس کی تفصیلی کیفیت ہمیں معلوم نہیں ہے اور جنوں کا ایک طائفہ رسول اللہ ﷺ پر ایمان بھی لایا تھا۔ لیکن رسول اللہ ﷺ نے انہیں نہیں دیکھا۔ نہ آپ نے ان کے ایمان کو سنایا دیکھا۔ البتہ اللہ نے اس بات کی اطلاع حضرت نبی ﷺ کو دی ۔
قل اوحی ……احداً (2) (28 : 1-2) ” اے پیغمبر کہہ دے ، میری طرف یہ وحی کی گئی ہے۔ ایک گروہ جس نے کان لگا کر سنا اور پھر کہا ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے ، جو راہنمائی کرتا ہے عقلمندی کی راہ کی طرف تو ہم اس پر ایمان لے آئے اور ہم ہرگز اپنے رب کے ساتھ شرک کرنے والے نہیں ہیں۔ “ ہمیں اس کا علم ہے کہ جنوں کا ایک گروہ بھی حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے زیرنگیں تھا۔ جو آپ کے لئے محرابی عمارات ، تصویریں اور بڑے بڑے حوضوں جیسے کھانے کے لگن بناتا تھا اور یہ جن آپ کے لئے سمندر میں غوطے بھی لگاتے تھے اور آپ کے دوسرے احکام بجالاتے تھے اور یہ سب آپ کے لشکر میں انسانوں اور پرندوں کے ساتھ موجود تھے۔
اور یہ جو ہم کہتے ہیں کہ اللہ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لئے جنوں اور انسانوں کا ایک گروہ مسخر کردیا تھا تو اس لئے کہ تمام روئے زمین کے جن و انس حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لشکر میں شامل نہ تھے کیونکہ حضرت سیمان کی حکومت کی حدود فلسطین ، شام ، عراق تک محدود تھیں۔ اسی طرح تمام جن اور تمام پرندے بھی آپ کے لئے مسخر نہ تھے۔ ان میں سے ایک گروہ آپ کے لئے مسخر کردیا گیا تھا۔
جن سب کے سب مسخر نہ تھے۔ اس لئے کہ ابلیس جنوں میں سے تھا ، اس کی ذریت بھی جن تھی جس طرح قرآن مجید میں ہے۔
کان من الجن اور سورت الناس میں ہے کہ وہ لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے اور حضرت سلیمان کے زمانے میں بھی شیطان جنات لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتے تھے ، لوگوں کو گمراہ کرتے تھے اور تمام شر کے کاموں پر آمادہ کرتے تھے۔ لہٰذا تمام جن حضرت سلیمان کے لئے مسخر نہ تھے ورنہ ان کی تسخیر میں ہوتے ہوئے وہ کس طرح فسادی کام کرتے۔ کیونکہ حضرت سلیمان ایک نبی تھے اور لوگوں کو ہدایت کی طرف بلاتے تھے لہٰذا صحیح بات یہ ہے کہ جنات کا ایک گروہ ان کے تابع تھا۔
پرندوں کے سلسلے میں بھی یہی استدلال ہے کہ جب پرندہ حاضر نہ پایا گیا ، تو معلوم ہوا کہ تمام پرندے مسخر نہ تھے ورنہ ہزار ہا پرندوں میں سے ایک کا ہونا نہ ہونا محسوس نہ ہونا۔ جب ہد ہد نہ پایا گیا تو آپ نے فرمایا۔
مالی لا اری الھدھد (82 : 2) ” یہ ہد ہد کہاں گیا میں اسے نہیں دیکھ رہا ہوں۔ “ معلوم ہوا کہ یہ ایک مخصوص ہد ہد تھا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ ایک ہی ہد ہد ہو۔ یا یہ کہ جو ہد ہد ڈیوٹی پر تھا وہ موجود نہ تھا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس ہد ہد یا مسخر ہدہدوں کو اللہ نے ادراک کی ذرا زیادہ قوت دے رکھی تھی جو اور ہدہدوں میں نہ تھی۔ اور یہ قوت مدر کہ صرف ان کے پرندوں کے لئے تھی جو سلیمان (علیہ السلام) کے لئے مسخر کئے گئے تھے۔ کیونکہ ان آیات سے ہد ہد کی گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک ذہین اور نیک پرندہ تھا۔
غرض حضرت سلیمان کے لئے جن و انس اور وحوش و طیور کی ایک عظیم فوج اٹھائی گئی تھی۔ یہ ایک عظیم فوج تھی اور یہ سب کے سب بےحد منظم تھے۔ یہ غیر منظم بھیڑ کی شکل میں نہ تھی۔ اس لئے ان کو افواج کہا گیا ہے اور جنود کے لفظ سے دونوں مفہوم ظاہر ہوتے ہیں یعنی کثرت تعداد اور تنظیم ۔
0%