وورث ……المبین (61)
حضرت دائود کو نبوت اور علم کے ساتھ ساتھ حکومت بھی دی گئی تھی لیکن ان دونوں پر اللہ کے فضل و کرم کے بیان میں ان کے اقتدار کا ذکر نہیں کیا گیا۔ صرف علم و حکمت کا ذکر کیا گیا ہے کیونکہ علم و حکمت کے مقابلے میں اقتدار ایک حقیر چیز ہے۔
وورث سلیمان دائود (82 : 61) ” او سلیمان نے دائود کی وراثت پانی۔ “ یہاں وراثت سے مراد بھی علم کی وراثت ہے کیونکہ علم و حکمت ہی اس قابل ہے کہ اس میں کوئی پیغمبر دوسرے کا وارث بنے اور اس بات کی تاکید اس سے بیھہوتی ہے کہ حضرت سلیمان لوگوں میں یہ اعلان کرتے ہیں۔
وقال یایھا الناس ……من کل شیء (82 : 61) ” اے لوگو ، ہمیں پرندوں کی بولیاں سکھائی گئی ہیں اور ہمیں ہر طرح کی چیزیں دی گئی ہیں۔ “ تو علم کا ذکر کردیا گیا اور باقی نعمتوں کا ذکر اس کے ضمن میں کردیا گیا۔ گویا دائود نے یہ چیزیں نہیں دی ہیں بلکہ دینے والا اللہ ہے جہاں سے علم آیا۔
وقال ……کل شیء (82 : 61) ” لوگو ہمیں پرندوں کی بولیاں سکھائی گئی ہیں اور ہمیں ہر طرح کی چیزیں دی گئی ہیں۔ “ ان باتوں کا حضرت سلیمان (علیہ السلام) لوگوں میں اعلان کرتے ہیں۔ یہ اعلان وہ بطور تحدیث نعمت کرتے ہیں اور اللہ کے ہاں اپنے مقام فضیلت کے لئے کرتے ہیں ، بطور فخر و مباہات نہیں کرتے۔ یہ کہ آپ لوگوں پر رعب جماتے تھے اور ایسی باتوں کا ذکر کرتے تھے جو ان میں نہ تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد ذکرہوا۔
ان ھذا لھو الفضل المبین (82 : 61) ” بیشک یہ اللہ کا نمایاں فضل ہے۔ “ یعنی اللہ کا فضل ہے اپنے بندے پر کیونکہ پرندوں کی بولیوں کی تعلیم پر صرف اللہ ہی قادر ہے اور اس طرح حضرت دائود سلیمان کو علی العلوم تمام انعامات دیئے گئے تھے۔ یہ بھی اللہ ہی دے سکتا ہے۔
پرندوں ، حیوانات اور حشرارت الارض کو اللہ نے ایک دور سے کو سمجھانے کے لئے وسائل دیئے تھے اور یہ ان کی زبان اور منطق ہے ۔ اللہ ان تمام جہانوں کے خالق ہیں۔ فرماتے ہیں۔
وما من دآبۃ فی الارض ولا طئر یطریر بجناحیہ الا امم امثالکم (الانعام : 83) ” زمین پر چلنے الے جتنے جانور ہیں اور اڑنے والے پرندے جو اپنے دوپروں کے ساتھ اڑتے ہیں وہ تمہیں طرح امتیں ہیں۔ “ یہ چزیں امت تب ہو سکتی ہیں جب ان کے درمیان اجتماعی روابط ہوں۔ جن کے مطابق وہ رہتے ہوں اور ایسے وسائل اور ذرائع ہوں ، جن کے ذریعے وہ ایک دور سے کو سمجھتے ہیں۔ بیشمار حشرات حیوانات اور پرندوں کے اندر یہ چیزیں نظر آتی ہے۔ حشرارت الارض کی اقسام کے ماہرین نے اپنے اندازوں اور مشاہدوں کے ذریعے ان انواع کے ذرائع تفاہم کی بعض علامات دریافت بھی کی ہیں جو اگر چہ ظنی ہیں۔ رہا وہ علم جو حضرت سیمان (علیہ السلام) کو دیا گیا تھا وہ ان کے ساتھ خاص تھا اور وہ معجزانہ انداز میں ان کو دیا گیا تھا وہ عام انسانوں کا عام مشاہدہ نہ تھا۔ نہ وہ ایسا علم تھا جس طرح ہمارے دور میں مشاہدہ اور تتبع سے بعض لوگوں نے بعض انواع کے بارے میں معلوم کی ہیں۔ یہ انسانی علوم ظن وتخمین ہیں۔ ان کی نوعیت اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے علم کی نوعیت مختلف ہے۔
میں چاہتا ہوں کہ بطور تاکید مزید اس بات کی وضاحت کر دوں کیونکہ بعض جدید مفسرین کو سائنس کی علمی کامیابیوں نے اس قدر متاثر کردیا ہے کہ وہ قرآن کریم کی تفسیر جدید علمی انکشافات کی روشنی میں کرتے ہیں۔ ان مفسرین نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے علم منطق الطیر کی ایسی ہی تشریح کی ہے کہ یہ ایسا ہی علم تھا جیسا کہ دور جدید کے بعض ماہرین نے حشرارت الارض اور حیوانات کی بعض انواع و اجناس کے بارے میں معلوم کیا ہے۔ ایسی کوششیں دراصل قرآنی معجزات کو اپنی حقیقی ماہیت سے نکال دیتی ہیں۔ یہ دراصل ایک شکست خوردہ انداز فکر ہے اور جدید سائنس کے سامنے غیر ضروری طور پر بچھ جاتا ہے۔ حالانکہ سائنس کی انکشافات بہت ہی حقیر و قلیل ہیں جبکہ اللہ کے لئے یہ بات کوئی مشکل امر نہیں ہے کہ وہ کسی شخص کو حیوانات ، حشرارت اور طیور و حوش کے وہ تمام طریقہ اظہار اور مکالمہ سمجھا دے اور معجزانہ انداز میں سمجھا دے۔ بغیر سائنس ریسرچ اور جہد کے اللہ کے لئے یہ اس طرح آسان ہے کہ اس نے انسانوں اور حیوانوں کے درمیان جو پردہ حائل کردیا ہے بس صرف اسے ہٹانا ہے وہ تو تمام انواع کا خالق ہے۔
پھر یہ بات اس عظیم معجزے کا ایک پہلو تھا جو سلیمان (علیہ السلام) کا دیا گیا تھا۔ اس کے دوسرا مصدر یہ تھا کہ حضرت کے لئے جنوں اور پرندوں کی ایک بڑی تعداد کو مسخر کردیا گیا تھا تاکہ وہ آپ کی حکومت کے ماتحت ہوں اور آپ کے لئے پوری طرح مطیع فرمان ہوں ، جس طرح انسانوں کی جو افواج آپ نے بھرتی کر رکھی تھیں اور پرندوں میں سے جو گروہ آپ کے زیر نگیں کردیا گیا تھا اسے اللہ نے ایک خاص قوت مدد کہ دی تھی اور وہ قوت ان جیسے عام پرندوں میں نہ تھی۔
یہ بات ہد ہد کے قصے سے معلوم ہوتی ہے جس نے ملکہ سبا کی مملکت کے حالات معلوم کئے اور اس نے ان کے حالات کو اس طرح سمجھا جس طرح کہ اعلیٰ درجے کا عقلمند اور متقی شخص سمجھ سکتا ہے اور یہ بھی اس معجزے کا ایک حصہ تھا جو حضرت سلیمان کو دیا گیا تھا۔
اللہ کی یہ سنت ہے کہ اللہ کی مخلوق میں جو حیوانات پائے جاتے ہیں ان کے درمیان عقلمندی کی سطح اونچی اور نیچی تو ہو سکتی ہے لیکن کسی حیوان کو یہ مقام حاصل نہیں ہوتا ہے کہ اس کی قوت مدر کہ انسان سے بڑھ جائے یا اس کے برابر ہوجائے۔ یہ حیوانات اور طیور کی خلقت میں سنت الہیہ نہیں ہے۔ اور نہ یہ سنت اس پوری کائنات کے نظام کے ساتھ ہم آہنگ ہے اور سنت الہیہ کے تابع ہے۔ یہ سنت اول روز سے ایسی ہی چل رہی ہے۔
آج ہمارے ہاں جو ہد ہد پایا جاتا ہے ، ہزار باملین سال پہلے بھی ہد ہد اسی نہج پر پیدا ہو رہا تھا۔ جب سے اللہ نے اسے پیدا کیا ہے۔ کیونکہ اللہ نے ہر حیوان کی اندر ایسے جینز پیدا کئے ہیں کہ آج کا ہد ہد ہزار ہا ملین سال پہلے پیدا کئے جانے والے ہد ہد کی پوری کاپی ہے۔ اس کے اندر جو اور جس قدر تبدیلی بھی ہو وہ اپنی نوعیت کے دائرے سے نہیں نکل سکتا۔ یہ بھی سنت الہیہ کا ایک پہلو ہے اور اس کائنات کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔
لیکن ان دونوں حقائق کے باوجود یہ نوامیس فطرت اور یہ سنت الہیہ اس بات سے مانع نہیں ہیں کہ اللہ اپنی قدرت کے اصولوں کے اندر استنائی صورت پیدا کر دے۔ بعض اوقات یہ استثنائی حالت بھی دراصل ناموس عام اور سنت جاریہ ہی کا ایک حصہ ہوتی ہے لیکن ہم اس مخصوص پہلو سے خبردار نہیں ہوتے۔ اس جزئی ناموس اور استثنائی حالت کا علم دراصل صرف اللہ کو ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بظاہر چلتے ہوئے اصول کو روک دیتا ہے۔ اس طرح سنت الہیہ میں بظاہر جو تبدیلی ہوتی ہے وہ بھی ایک برتر سنت ہوتی ہے۔ یہی تھی کہ کہانی ہد ہد اور سلیمان کی اور اللہ نے ان قوتوں کو سلیمان (علیہ السلام) کے لئے مسخر کردیا تھا۔
اب ہم اس نکتے سے سلیمان (علیہ السلام) کے قصے کی طرف آتے ہیں کہ حضرت دائود کی وراثت پا کر انہوں نے اللہ کی طرف سے کیا کیا انعامات پائے۔
0%