درس نمبر 271 ایک نظر میں
” یہاں حضرت دائود کی طرف صرف ایک اشارہ ہے لیکن پورا قصہ صرف حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا ہے اور اس سے قبل حضرت مسویٰ (علیہ السلام) کے قصے کی ایک مختصر کڑی دی گئی ہے۔ یہ سب حضرات انبیائے بنی اسرائیل میں سے تھے اور اس سورت کے آغاز ہی میں قرآن کریم پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ کہا گیا تھا۔
ان ھذا ……یختلفون (82 : 68) اس سورت میں حضرت سلیمان علیہالسلام کے قصے کی سب سورتوں کے مقابلے میں زیادہ تفصیلات دی گئی ہیں ، یعنی جہاں جہاں حضرت سلیمان کا تذکرہ ہوا ہے۔ اگرچہ یہاں ان کے حالات زندگی میں سے قصہ ہد ہد اور ملکہ سبا کی تفصیلات ہیں۔ اس کا آغاز یوں ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان علہی السلام یہ اعلان فرماتے ہیں کہ اللہ نے ان کو خصوصی طور پر پرندوں کی باتیں سکھانی ہیں اور ہر چیز عطا کی ہے اور اللہ نے ان پر جو فضل و کرم کیا ہے وہ اس کا شکر ادا کرتے ہیں۔ اس کے بعد ایک منظر آتا ہے جس میں حضرت سلیمان اپنے لائو لشکر سمیت چلتے نظر آتے ہیں۔ اس عظیم لشکر میں جن ، انس اور پرندے سب شامل ہیں۔ جب یہ لشکر چلتا ہے تو ایک چھوٹی سی چیونٹی اپنی قوم کو خبردار کرتی ہے کہ ایک عظیم لشکر جرار اس علاقے کا رخ کر رہا ہے۔ لہٰذا اپنے آپ کو بچائو۔ حضرت سلیمان یہ الفاظ سنتے ہیں اور اس پر بھی رب کا شکر ادا کرتے ہیں۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اس بات کو پاتے ہیں کہ نعمت تو باتلا ہے ۔ اس لئے وہ دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ تو اس ابتلا میں مجھے شکر اور کامیابی کی توفیق عطا فرما۔
یہ قصہ اس سورت میں کیوں لایا گیا ہے۔ سورت کے آغاز میں بیان کردیا گیا ہے کہ یہ کتاب ہدایت ہے اور پھر اسی سورت میں یہ کہا گیا ہے کہ یہ قرآن کریم بنی اسرائیل کے سامنے ان بیشتر موضوعات پر کلام رتا ہے جن کے بارے میں ان کے اندر اختلاف رائے ہے جیسا کہ اس سے قبل ہم کہہ آئے ہیں اور حضرت موسیٰ ، حضرت دائود اور حضرت سلیمان (علیہم السلام) کے قصص تاریخ بنی اسرائیل کی اہم کڑیاں ہیں۔
یہاں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے قصے کی جو کڑی پیش کی گئی ہے اس کی اس سورت کے مضمون سے مناسبت کیا ہے۔ یہ کڑی کئی پہلوئوں کے اعتبار سے مناسبت رکھتی ہے۔
اس سورت کا مرکزی مضمون علم ہے جیسا کہ ہم نے اس سورت پر تبصرے میں کہا ہے۔ اور حضرت دائود و سلیمان کے قصے میں سب سے پہلا اشارہ ہی اسطرف ہے۔
” یہ قرآن بنی اسرائیل کے سامنے ان بیشتر باتوں کی تفصیلات بیان کرتا ہے جس میں وہ مختلف الرائے ہیں۔ “
وقد اتینا دائود و سلیمان علماً (82 : 51) ” ہم نے دائود اور سلیمان کو علم عطا کیا۔ “ اور پھر سلیمان (علیہ السلام) نے اس کڑی میں منطق الطیر کے علم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ کی نعمت کا اعتراف کیا ہے۔
وقال یایھا الناس علمنا منطق اطیر (82 : 61) ” لوگو ہمیں پرندوں کی بولیاں سکھائی گئی ہیں ۔ “ اور اس قصے کے درمیان ہد ہد اپنی غیر حاضری کا عذر بیان کرتے ہوئے یہ کہتا ہے۔
احطت بمالم تحظ ……یقین (82 : 22) ” میں نے وہ معلومات حاصل کی ہیں جو تیرے علم میں نہیں ہیں۔ میں سبا کے متعلق یقینی اطلاع لے کر آیا ہوں۔ “ اور پھر اس قصے میں ہے کہ جس شخص کے پاس کتاب کا علم تھا ، اس نے کہا کہ میں ملکہ سبا کا تخت پلک جھپکتے لاتا ہوں۔
سورت کے افتتاح میں تھا کہ یہ قرآن اللہ کی طرف سے ایک کتاب مبین ہے اور اس کو مشرکین مکہ کی ہدایت کے لئے بھیجا گیا ہے۔ لیکن وہ اس کی تکذیب کرتے ہیں۔ پھر اس میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے ایک خط کا ذکر ہے جو ملکہ سبا کے نام لکھا گیا۔ لیکن وہ جبم علوم کرلیتی ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) سچائی کی دعوت دیتے ہیں تو وہ اور اس کی قوم اسے جلد ہی قبول کر کے مطیع فرمان ہوجاتے ہیں۔ خصوصاً جبکہ وہ دیکھتے ہیں کہ جان و انس اور پرندوں کی قوتیں بھی حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لئے مسخر کر دیگئی ہیں اور یہ اللہ ہی ہے جس نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو یہ قوتیں عطا کی ہیں۔ وہی ہے اقتدار اعلیٰ کا مالک ۔
پھر اس سورت میں انسانوں پر اللہ کے انعامات کا بھی ذکر ہے۔ اس کائنات میں اس کے جو نشانات ہیں ان کا بھی ذکر ہے۔ لیکن لوگوں کی حالت یہ ہے کہ وہ پھر بھی اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں اور شکر نعمت بجا نہیں لاتے۔ اس قصے میں بھی ایک بندہ شکر گزار کا ذکر ہے ، جو اللہ کے سامنے دست بدعا ہوتے ہیں کہ اے اللہ مجھے یہ توفیق دے کہ میں تیری انعامات کا شکر بجا لائوں۔ جو اللہ کی آیات پر غور کرتے ہیں اور ان سے کسی وقت بھی غافل نہیں ہوتے اور نہ وہ اللہ کے انعامات کی وجہ سے سرکشی اختیار کرتے ہیں۔ نہ قوت کی وجہ سے وہ گھمنڈ میں مبتلا ہوتے ہیں۔ لہٰذا اس قصے کی مضمون سورت کے ساتھ کئی ربط اور مناسبتیں ہیں اور سورت کے موضوع اور قصے کے اندر جا بجا واضح اشارات موجود ہیں۔
حضرت سلیمان اور ملکہ سبا کی کہانی کو جس طرح قرآن مجید نے بیان کیا ہے وہ اس بات کا نمونہ ہے کہ قرآن مجید قصص کو کس طرح لاتا ہے اور اس کا قصص کا فنی انداز بیان کیسا ہوتا ہے۔ اس قصے میں تگ و دو ، جذبات و تاثرات ، مختلف مناظر اور مشاہد پائے جاتے ہیں۔ پھر مختلف مناظر کے درمیان گیپ جن میں غیر ضروری حصوں کو کاٹ دیا گیا ہے۔ اور اس کے دوسرے فنی کمالات ہیں۔
اب ذرا آیات کی تفصیلات
درس نمبر 271 تشریح آیات
51……تا……44
ولقد اتینا دائود ……المومنین (51)
”(یہ اشارہ ہے کہ اب قصے کا آغاز ہونے والا ہے اور یہ افتتاحی کلمات ہیں۔ اعلان کیا جاتا ہے کہ اس قصے کے بڑے کرداروں کو ہم نے بڑے بڑے انعامات سے نوازا تھا اور سب سے بڑا اعزاز تو علم ہوتا ہے جو حضرت دائود اور سلیمان (علیہم السلام) کو دیا گیا ۔ حضرت دائود کو جو علوم دیئے گئے تھے قرآن کریم کی دوسری سورتوں میں اس کی تفصیلات موجود ہیں۔ یہ کہ زبور کی آیات کو ترتیل کے ساتھ پڑھنے کا فن ان کو دیا گیا تھا ، وہ اس فن میں اس قدر ماہر تھے کہ جب وہ زبور کی آیات پڑھتے تھے تو یہ پوری کائنات انکے ساتھ گنگناتی تھی۔ پہاڑ کی گونج اور پرندوں کی چہچہاہٹ ان کے ساتھ زبور کو گاتے کیونکہ آپ کی آواز بےحد میٹھی تھی۔ وہ سوز دل سے پڑھتے تھے اور اپنے رب کے ساتھ مناجات میں وہ غرق ہوجاتے تھے۔ پھر ان کو اللہ نے جنگی ساز و سامان کی بنیادی ٹیکنالوجی دی تھی۔ وہ اچھی زر ہیں بناتے تھے ، دھاتوں کو پھگلانے میں مہارت رکھتے تھے اور ان سے ہر قسم کی چیزیں بناتے تھے اور وہ ایک بہترین جج تھے اور اس کام میں حضرت سلیمان ان کے مشیر خاص تھے۔
رہے سلیمان (علیہ السلام) تو اس سورت میں وہ پوری تفصیلات دی گئی ہیں جو اللہ نے انکو سکھائیں یعنی پرندوں کی بولیاں اور جس طرح دوسری سورتوں میں ذکر ہے کہ وہ ایک بہترین جج تھے اور ان کے لئے ہوائوں کو بھی مسخر کردیا گیا تھا اور اس قصے کا آغاز بھی اسی اشاریے سے ہوتا ہے۔
ولقد اتینا دائودو سلیمان علماً (82 : 51) ” یہ واقعہ ہے کہ ہم نے دائود اور سلیمان کو علم دیا تھا۔ “ لیکن آیت ختم ہونے سے پ ہے حضرت سلیمان اور حضرت دائود (علیہم السلام) کی جان سے یہ بات آجاتی ہے کہ وہ رب تعالیٰ کی اس نعمت کا شکر ادا کرتے ہیں اور علم کی نعمت کی ان کے ہاں بڑی قدر و قیمت ہے۔ وہ خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ نے اس معاملے میں ان کو اپنے مومن بندوں کی ایک بڑی تعداد کے مقابلے میں ترجیح دی ہے۔ یوں وہ علم کی قدر و قیمت اور پھر اس عظیم احسان کا اعتراف کرتے ہیں۔
یہاں اس علم کی نوعیت اور تفصیلات نہیں دی گئیں کیونکہ اللہ کے ہاں مطلق علم ایک فضل الٰہی ہے۔ عام علم کو اللہ کی نعمت بتانا مقصود ہے۔ ہر قسم کا اور ہر نوع علم مطلوب مومن ہے۔ پھر ہر عالم کا یہ فرض ہے کہ وہ اللہ کے اس فضل کا شکر ادا کرے۔ اور اللہ کا شکر اور اس کی حمد بیان کرتا رہے اور یہ دعا کرتا رہے کہ اے اللہ یہ علم میرے لئے نافع ہو۔ یہ نہ ہو کہ علم انسان کو اللہ سے دور کر دے ، اللہ کو بھلانے کا سبب بنے حالانکہ علم دینے الا اللہ ہے۔
وہ علم جو قلب انسانی کو اللہ سے دور کرے ، وہ فاسد علم ہے۔ وہ اپنے مقصد اور اپنے ہدف سے دور اور ایک طرف ہوگیا ہوتا ہے۔ ایسا علم صاحب علم کے لئے فلاح و نجات اور سعادت مندی کا باعث نہیں ہوتا اور نہ ایسا علم انسانوں کے لئے مفید ہو سکتا ہے۔ ایسا علم انسانوں کے لئے مصیبت ، بدبختی ، خوف ، قلق ، بےچینی اور بالاخر ہلاکت کا سبب بنتا ہے ۔ کیونکہ یہ علم اپنے مصدر و منبع سے کٹ گیا ہے ، اس کی سمت غلط ہے اور اس نے اللہ تک پہنچنے کی راہ گم کردی ہے۔
اس وقت انسانیت علم کے ایک اعلیٰ مرتبے تک پہنچ چکی ہے۔ خصوصاً ایٹم کے توڑنے کے بعد۔ اور پھر اسے مختلف مفید کاموں میں استعمال کرنے کے بعد۔ لیکن جن لوگوں کے ہاتھ یہ ایٹمی علم آیا اور جن کے دلوں میں خدا کا خوف نہ تھا۔ ان کے ہاتھوں انسانیت نے کس قدر کڑوا پھل چنا اور کھایا۔ یہ اس لئے کہ ان لوگوں کے دل میں خدا کا خوف خدا کی تعریف اور خدا کی طرف توجہ نہ تھی۔ چناچہ اس علم نے اور ایسے علماء نے ہیرو شیما کا رنامہ سر انجام دیا۔ ناگاسا کی کی تباہی مچائی اور ان واقعات کے بعد اب شرق و غرب کے تمام انسان رات دن اس کرہ ارض اور تمام انسانیت کی تباہی کا انتظار کر رہے ہیں۔
اس تمہید کے بعد کہ حضرت دائود سلیمان دونوں کو ہم نے علم سے نوازا اور انہوں نے اللہ کو حمد اور تعریف کی کہ اللہ نے ان پر احسان کیا اور علم کی قدر و قیمت کو محسوس کیا۔ اب صرف حضرت سلیان (علیہ السلام) کی زندگی کے واقعات بیان کئے جاتے ہیں۔
0%