والذين يقولون ربنا هب لنا من ازواجنا وذرياتنا قرة اعين واجعلنا للمتقين اماما ٧٤
وَٱلَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَٰجِنَا وَذُرِّيَّـٰتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍۢ وَٱجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا ٧٤
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

آخر میں یہ کہ وہ صرف رب کے سامنے سجدے اور قیام پر ہی اکتفاء نہیں کرتے ، اور ان دوسرے عظیم صفات کو اپنے اندر جمع کرنے پر ہی اکتفاء نہیں کرتے بلکہ وہ اپنے بعد ایسی اولاد کی بھی امید کرتے ہیں جو ان کے طریقے پر چلنے والی ہو۔ ان کی بیویاں بھی ان ہی جیسی ہوں۔ ان کو دیکھ کر ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔ ان کے دل ان کے بارے میں مطمئن ہوں۔ اور اس طرح ان کی بیویوں اور بچوں کیذریعے عبادالرحمٰن کی تعداد میں اضافہ ہو اور وہ یہ امید بھی کرتے ہیں کہ وہ دور سے نیک بندوں کے لئے بھی اچھا نمونہ ہوں۔

والذین ……اماماً (74)

یہ گہرا فطری اور ایمانی شعور ہے ، یہ کہ ہر مومن صادق یہ خواہش رکھتا ہے کہ اس کے ساتھی زیادہ ہوں اور سب لوگ اللہ کی طرف چل پڑیں اور دوسروں سے پہلے انسان اپنی بیویوں اور اولاد کے بارے میں یہ سوچتا ہے کہ وہ اس کی لائن پر آجائیں۔ کیونکہ سب سے زیادہ کسی کی اولاد اسکی اطاعت پر آمادہ ہو سکتی ہے اور سب سے زیادہ کوئی شخص اپنی اولاد اور اہل و عیال کے بارے میں مسئول ہوسکتا ہے۔ پھر سکی بھی مومن میں یہ فطری خواشہ ہوتی ہے اور ہونا چاہئے کہ ہو بھلائی کا نمونہ اور قائد ہو۔ اللہ کی طرفرجوع کرنے والے اس کی زنگدی سے سبق سیکھیں۔ اہل ایمان کے لئے نمونہ اور اہل ایمان کا سرخیل ہونے کی تمنا کوئی بڑائی اور برتری کا جذب نہیں بلکہ بھلائی میں آگے بڑھنے کا جذبہ ہے ورنہ تو سب مومن ایک ہی راہ کے مسافر ہوتے ہیں۔

……

اب یہاں یہ بھی بتا دیا جاتا ہے کہ ایسے بندگان رحمن کا انجام و انعام کیا ہوگا ؟