You are reading a tafsir for the group of verses 23:63 to 23:67
3

بل قلو بھم تھجرون (آیت نمبر 62 تا 67)

یعنی یہ لوگ جن حالات میں مشغول ہیں ان میں وہ اس لیے غرق نہیں ہیں کہ پیغبران کوا ان کی طاقت سے زیادہ احکام دیتے ہیں بلکہ اصل سبب یہ ہے کہ یہ لوگ غفلت میں ڈوبے ہوئے ہیں اور اس سچائی کی طرف متوجہ ہی نہیں ہیں جسے قرآن کریم پیش کرتا ہے بلکہ وہ ان دوسری راہوں پر بہتے چلے جاتے ہیں ۔ اور یہ راہیں اسلام سے متضادرا ہیں ہیں۔

ولھم اعمال من دون ذلک ھم لھا عملون (23 : 63) ” اور ان کے اعمال اس طریقے سے مختلف ہیں اور یہ لوگ وہ اعمال کرتے دلے جاتے ہیں “۔ اب اس منظر کو پیش کیا جاتا ہے کہ جب اللہ کا عذاب ان کو آلیتا ہے ۔ یہ عذاب بہت ہی تباہ کن ہے ، اچانک ہے دفعتہ ان کو گھیر لیتا ہے ۔

حتی اذا اخذنا متر فیھم بالعذاب اذا ھم یحشرون (23 : 63) ” یہاں تک کہ جب ہم ان کے عیاشوں کے عذاب میں پکڑ لیں گے تو پھر وہ ذکرانا شروع کردیں گے “۔ مالدار لوگوں کی روش ہمیشہ یہ ہوتی ہے کہ یہ لوگ بسا اوقات عیا شیوں ، مد ہوشیوں اور خر مستیوں میں بہت زیادہ غرق ہوتے ہیں اور یہ لوگ ان خر مستیوں کے انجام کی کوئی پرواہ نہیں کرتے۔ اب زرا ان کی حالت دیکھ لو کہ ان کو اچانک خدا کا عذاب آلیتا ہے اور وہ چیختے چلانے لگ جاتے ہیں ۔ اب وہ فریاد کرتے ہیں اور رحم کے طلبگا ہوتے ہیں ۔ ان کی یہ حالت اس لیے ہوتی ہے کہ عیاشی میں بدمت ، غافل ، اور متکبر اور مغرور تھے۔ اب اس شورو فغاں اور فریاد پر کچھ نرمی کرنے اور رحم کرنے کے بجائے ان کی تواضع زجرو توبیخ اور ڈانٹ ڈپٹ سے کی جاتی ہے۔

لا تنصرون (23 : 65) ” اب بند کرو ، اپنی فریاد و فغاں ، ہماری طرف سے اب کوئی مدد تمہیں نہیں ملتی “۔ یہ منظر سامنے ہے ۔ ان مجرموں کو ڈانٹ پلائی جارہی ہے ، ان کو کسی قسم کی امداد اور نرمی سے مایوس کن جواب دیا جارہا ہے اور ساتھ ان کو یاد دلانے جارہا ہے کہ وہ کس طرح غفلت میں غرق تھے اور دعوت اسلامی کے بارے میں ان کا ردعمل کیا تھا۔

قد کانت ایتی تتلی علیکم فکنتم علی اعقابکم تنکصون (23 : 66) ” میری آیات سنائی جاتی تھیں تو تم الٹے پائوں بھاگتے تھے “۔ یعنی الٹے پائوں ہٹ کر تم بھاگ جاتے تھے گویا جو کچھ پڑھ کر تمہیں سنایا جا رہا تھا وہ کوئی خطرناک بات تھی یا نہایت ہی مکروہ امر تھا جس سے علیحدہ ہونا ضروری تھا ۔ حق پر ایمان لانے سے وہ اپنے آپ کو بہت ہی برا سمجھتے تھے۔ نہ صرف یہ کہ وہ الٹنے پائوں پھر کر بھاگ جاتے تھے بلکہ وہ اپنی چو پا لوں میں رات کو جو مجالس منعقد کرتے تھے ان میں دعوت اسلامی کے بارے میں سخت نازیبا الفاظ استعمال کرتے تھے اور یہ ان کے لیے مذاق کا ایک موضوع تھا۔

یہ لوگ اپنی مجالس میں اسلام کے بارے میں نہایت ہی گھٹیا زبان استعمال کرتے تھے۔ یہ مجالس وہ خانہ کعبہ میں اپنے بتوں کے ارد گر بیٹھ منعقد کیا کرتے تھے۔ قرآن کریم ان کی مشغولیوں کی بہت ہی خوبصورت تصویر کشی کرتا ہے جبکہ اب عذاب آنے کے بعد وہ سخت فریاد کرتے ہیں اور مدد طلب کرتے ہیں۔ قرآن ان کو یاد دلاتا ہے کہ ذر ان مجالس کو تو یاد کرو۔ یہ تصویر کشی اس انداز میں کی جاتی ہے گویا یہ واقعہ ابھی ہو رہا ہے اور وہ رات دیکھ رہے ہیں اور ان ہی حالات میں زندہ ہیں ۔ قیامت کے مناظر کی ایسی تصویر کشی قرآن کا مخصوص اسلوب ہے ۔ (دیکھئے میری کتاب التصویر الغنی فی القرآن) ۔

مشرکین رسول اللہ ﷺ اور قرآن پر اپنی مجلسوں میں اعتراضات کرتے تھے اور ایام جاہلیت کے اخلاق کے مطابق اپنے اس رویہ پر فخر کرتے تھے ، وہ اس قابل ہی نہ تھے کہ وہ قرآن کی سچائی کو سمجھتے کیونکہ وہ بصیرت کے اندھے تھے ۔ حق قبول کرنا تو کجاوہ تو قرآن کے ساتھ مذاق کرتے تھے۔ نبی ﷺ پر الزامات لگاتے تھے ۔ یہی وجہ بات ہر زمانے میں ہوتی رہی ہے ۔ ہر جاہلیت میں یہی ہوتا ہے اور یاد رہے کہ عرب جاہلیت بھی دوسری جاہلیت میں سے ایک جاہلیت تھی اور نزول قرآن تک کئی جاہلتیں آتی رہیں اور اس کے بعد بھی آتی رہیں گی۔

قیامت کے اس منظر سے قرآن کریم ان لوگوں کو دنیا کی طرف منتقل کرتا ہے ۔ یہ از سر نو اب دنیا میں ہیں۔ اس منظر میں خود ان سے پوچھا جاتا ہے کہ انہوں نے یہ عجیب و غریب اور غیر معقول موقف کیوں اختیار کیا اور یہ کہ وہ کیا معقول وجہ ہے کہ یہ لوگ رسول امین ﷺ پر ایمان نہیں لاتے ۔ آخر وہ کیا شبہات ہیں جو ان کے دلوں میں خلجان پیدا کرے ہیں۔ اور ان کو راہ ہدایت سے روکتے ہیں وہ کیا دلائل ہیں جن کی وجہ سے وہ امراض کرتے ہیں اور اپنی مجالس میں بکواس کرتے ہیں حالانکہ دین اسلام ایک سیدھا سادھا دین حق صراط مستقیم ہے۔