You are reading a tafsir for the group of verses 23:53 to 23:54
3

درس نمبر 50 ایک نظر میں

یہ اس کا سورة کا تیسرا سبق ہے ۔ رسولوں کے حالات بیان کرنے کے بعد اب اس میں لوگوں کے حالات کی تصویر کشی کی گئی ہے کہ جب رسول آخر تشریف لائے تو لوگوں کے یہ حالات تھے۔ لوگوں کے درمیان شدید مذہبی اختلافات تھے۔ عقیدہ توحید جسے تمام بالا تفاق بیان کرتے آئے تھے اس میں بھی اختلافات تھے۔

رسول خاتم النبین جس حق کو لے آئے ہیں اس کے ساتھ بھی لوگوں نے ایسا غفلت کا سلوک کیا حالانکہ انہیں چاہیے تھا کہ وہ اس نئی دعوت اور اس کے ماننے والوں پر غور کرتے ۔ اہل ایمان کا کردار ان کے سامنے تھا۔ وہ اللہ کی بندگی کرتے تھے ، نیک کام کرتے تھے ، خوف آخرت رکھتے تھے۔ اس تصور آخرت سے ان کے دل کانپتے تھے کہ ایک دن انہوں نے اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونا ہے۔ یہ دو کرایہ دار ہیں دو قسم کے ، ان لوگوں کے درمیان مکمل تقابل ہے ۔ اہل ایمان جاگتے ہیں اور ڈرتے ہیں اور اہل کفر غافل اہور مد ہوش ہیں۔ اس سورة کے اس سبق میں ان کے موقف پر تنقید کی گئی ہے۔ ان کے شبہات کا جواب دیا گیا ہے ۔ ان کے وجدان کو جگایا گیا ہے کہ وہ نفس و آفاق میں موجود دلائل ایمان پر غور کریں ۔ پھر ان کے ہاں مسلمہ عقائد کو لیا گیا ہے اور انہی سے ان کے خلاف حجت قائم کی گئی ہے ۔ آخری میں کہہ دیا گیا ہے کہ چھوڑو انہیں ان کے حال پر کہ یہ اپنے مقررہ انجام تک پہنچ جائیں۔ رسول اللہ ﷺ کو کہا گیا ہے کہ آپ اپنی راہ پر گامزن رہیں اور ان کے اس عناد اور ہٹ دھری سے دل گرفتہ پریشان نہ ہوں بلکہ ان کے برے رویے کے مقابلے میں اچھا رویہ اختیار کریں اور شیطان رجیم سے اللہ کی پناہ طلب کریں جو ان لوگوں کو گمراہ کر رہا ہے۔