undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

آیت 5 یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ اِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَاِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ تُرَابٍ ”انسانی جسم کی اصل مٹی ہے۔ اس کی غذا بھی نباتات اور معدنیات کی شکل میں مٹی ہی سے آتی ہے۔ اگر وہ کسی جانور کا گوشت کھاتا ہے تو اس کی پرورش بھی مٹی سے حاصل ہونے والی غذا سے ہی ہوتی ہے۔ثُمَّ مِنْ نُّطْفَۃٍ ”اور یہ مادہ بھی اسی جسم کی پیدوار ہے جو مٹی سے بنا اور مٹی سے فراہم ہونے والی غذا پر پلا بڑھا۔ثُمَّ مِنْ عَلَقَۃٍ ”عام طور پر ”علقہ“ کا ترجمہ ”جما ہوا خون“ کیا جاتا ہے جو درست نہیں ہے۔ اس لفظ کی وضاحت سورة المؤمنون کی آیت 14 کے ضمن میں آئے گی۔ثُمَّ مِنْ مُّضْغَۃٍ مُّخَلَّقَۃٍ وَّغَیْرِ مُخَلَّقَۃٍ ”پہلے مرحلے میں اس لوتھڑے پر کسی قسم کے کوئی نشانات نہیں تھے۔ پھر رفتہ رفتہ مختلف مقامات پر نشانات بننے لگے۔ بازوؤں اور ٹانگوں کی جگہوں پر دو دو نشانات بنے اور اسی طرح دوسرے اعضاء کے نشانات بھی ابھرنا شروع ہوئے۔لِّنُبَیِّنَ لَکُمْ ط ”تا کہ رحم مادر میں انسانی جنین پر گزرنے والے مختلف مراحل کے بارے میں پوری وضاحت کے ساتھ تم لوگوں کو بتادیا جائے۔ تعار فِ قرآن بیان القرآن ‘ جلد اوّل کے باب پنجم میں علم جنین Embryology کے ماہر سائنسدان کیتھ ایل مور کینیڈا کا ذکر گزر چکا ہے۔ اس مضمون پر اس شخص کی ٹیکسٹ بکس دنیا بھر میں مستند مانی جاتی ہیں اور یونیورسٹی کی سطح تک پڑھائی جاتی ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ قرآن نے رحم مادر میں جنین کے مختلف مراحل کو جس طرح بیان کیا ہے اس موضوع پر دستیاب معلومات کی اس سے بہتر تعبیر ممکن نہیں ہے۔ مزید برآں وہ اس امر پر حیرت کا اظہار بھی کرتا ہے کہ صدیوں پہلے قرآن میں ان مراحل کا درست ترین تذکرہ کیونکر ممکن ہوا۔وَنُقِرُّ فِی الْاَرْحَامِ مَا نَشَآء الآی اَجَلٍ مُّسَمًّی ”یعنی رحم کے اندر حمل ویسا ہوتا ہے جیسا اللہ تعالیٰ چاہتا ہے۔ یہ فیصلہ صرف وہی کرتا ہے کہ وہ بچہ مذکر ہوگا یا مؤنث ‘ ذہین وفطین ہوگا یا کند ذہن ‘ خوبصورت ہوگا یا بدصورت ‘ تندرست وسالم ہوگا یا بیمار و معذور۔ اس معاملے میں کسی کی خواہش یا کوشش کا سرے سے کوئی دخل نہیں ہوتا۔ اس مضمون کے بارے میں سورة المؤمنون کے پہلے رکوع میں مزید تفصیل بیان ہوگی۔وَمِنْکُمْ مَّنْ یُّتَوَفّٰی وَمِنْکُمْ مَّنْ یُّرَدُّ الآی اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِکَیْلَا یَعْلَمَ مِنْم بَعْدِ عِلْمٍ شَیْءًا ط ””اَرْذَلِ الْعُمُر“ کی کیفیت سے حضور ﷺ نے اللہ کی پناہ مانگی ہے۔ بڑھاپے میں بعض اوقات ایسا مرحلہ بھی آتا ہے کہ انسان demencia کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس حالت میں اس کی ذہنی صلاحیتیں جواب دے جاتی ہیں ‘ یادداشت زائل ہوجاتی ہے اور وہی انسان جو اپنے آپ کو کبھی سقراط اور بقراط کے برابر سمجھتا تھا ‘ بچوں کی سی باتیں کرنے لگتا ہے۔ دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس کیفیت کو پہنچنے سے پہلے ہی اس دنیا سے اٹھا لے۔ میں نے ذاتی طور پر مولانا امین احسن اصلاحی صاحب مرحوم کو بڑھاپے کی اس کیفیت میں دیکھا ہے۔ آخری عمر میں ان کی کیفیت ایسی تھی کہ نہ زندوں میں تھے ‘ نہ مردوں میں۔ دیکھنے والے کے لیے مقام عبرت تھا کہ ایک ایسا شخص جو اعلیٰ درجے کا خطیب تھا اور اس کے قلم میں بلا کا زور تھا ‘ عمر کے اس حصے میں بےچارگی و بےبسی کی تصویر بن کر رہ گیا تھا اور اپنے پاس بیٹھے لوگوں کو پہچاننے سے بھی عاجز تھا۔ میں اس زمانے میں انہیں ملنے کے لیے ان کے پاس جاتا تھا مگر ایک حسرت لے کر واپس آجاتا تھا۔ مولانا صاحب کی تفسیر ”تدبر قرآن“ بلاشبہ بہت اعلیٰ پائے کی تفسیر ہے۔ اس میں انہوں نے ”نظام القرآن“ کے حوالے سے اپنے استاد حمید الدین فراحی رح کی فکر اور ان کے کام کو آگے بڑھایا ہے۔ میں نے ذاتی طور پر اس تفسیر سے بہت استفادہ کیا ہے ‘ لیکن مجھے مولانا سے بہت سی باتوں میں اختلاف بھی تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ رجم کی سزا سے متعلق رائے دینے میں ان سے بہت بڑی خطا ہوئی ہے۔ وضاحت کے لیے ملاحظہ ہو سورة النور ‘ تشریح آیت 2 اللہ تعالیٰ انہیں معاف فرمائے۔ مولانا کا ذکر ہوا ہے تو ان کے لیے دعا بھی کیجیے : اللّٰھُمَّ اغْفِرْلَہٗ وَارْحَمْہُ وَاَدْخِلْہُ فِی رَحْمَتِکَ وَحَاسِبْہُ حِسَاباً یَسِیْرًا۔ اَلّٰلھُمَّ نَوِّرْ مَرْقَدَہٗ وَاَکْرِمْ مَنْزِلَہٗ وََاَلْحِقْہُ بِعِبَادِکَ الصَّالِحِین۔ آمین یا ربَّ العالَمین ! زیر نظر آیت کے الفاظ پر دوبارہ غور کریں۔ یہاں انسانی زندگی کا پورا نقشہ سامنے رکھ کر بعث بعد الموت کے منکرین کو دعوت فکر دی گئی ہے کہ ہماری قدرت کا مشاہدہ کرنا چاہو تو تم اپنی زندگی اور اس کے مختلف مراحل پر غور کرو۔ دیکھو ! تمہاری ابتدا مٹی سے ہوئی تھی۔ اس مٹی سے پیدا ہو کر تم لوگ کس کس منزل تک پہنچتے ہو ‘ اور پھر آخر مر کر دوبارہ مٹی میں مل جاتے ہو۔ جس اللہ نے تمہیں یہ زندگی بخشی ‘ تمہیں بہترین صلاحیتوں سے نوازا ‘ جس کی قدرت سے انسانی زندگی کا یہ پیچیدہ نظام چل رہا ہے ‘ کیا تم اس کی قدرت اور خلاقی کے بارے میں شک کر رہے ہو کہ وہ تمہیں دوبارہ پیدا نہیں کرسکے گا۔ اپنی زندگی کی اس مثال سے اگر حقیقت تم پر واضح نہیں ہوئی تو ایک اور مثال پر غور کرو :وَتَرَی الْاَرْضَ ہَامِدَۃً فَاِذَآ اَنْزَلْنَا عَلَیْہَا الْمَآءَ اہْتَزَّتْ وَرَبَتْ ”اھتزاز کے معنی حرکت اور جنبش کرنے کے ہیں۔ اسی سے لفظ تَھْتَزُّ سورة النمل ‘ آیت 10 اور سورة القصص ‘ آیت 31 میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عصا کے بارے میں آیا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب اپنا عصا زمین پر رکھا تو اس میں حرکت پیدا ہوئی اور وہ سانپ کی طرح بل کھاتے ہوئے چلنے لگا۔ چناچہ یہاں ”اِھْتَزَّتْ“ کا مفہوم یہ ہے کہ بارش کے اثرات سے زمین میں زندگی کی لہر دوڑ گئی ‘ مردہ زمین یکایک زندہ ہوگئی اور اس میں حرکت پیدا ہوگئی۔ مختلف نباتات کی اَن گنت کو نپلیں جگہ جگہ سے زمین کو پھاڑ کر باہر نکلنا شروع ہوگئیں اور پھر وہ سبزہ لمحہ بہ لمحہ نشوونما پانے لگا۔وَاَنْبَتَتْ مِنْ کُلِّ زَوْجٍم بَہِیْجٍ ”نباتات کی زندگی کا دورانیہ cycle بہت مختصرہوتا ہے ‘ اس لیے تم اکثر اس کا مشاہدہ کرتے ہو۔ اپنے اسی مشاہدے کی روشنی میں تم لوگ اگر اپنی زندگی کے شب و روز کا جائزہ لو گے تو تمہیں انسانی اور نباتاتی زندگی میں گہری مشابہت نظر آئے گی۔ مردہ زمین میں زندگی کے آثار پیدا ہونے ‘ نباتات کے اگنے ‘ نشوونما پانے ‘ پھولنے پھلنے اور سوکھ کر پھر بےجان ہوجانے کا عمل گویا انسانی زندگی کے مختلف مراحل مثلاً پیدائش ‘ پرورش ‘ جوانی ‘ بڑھاپے اور موت ہی کا نقشہ پیش کرتا ہے۔ اس میں صرف دورانیے کا ہی فرق ہے۔ نباتاتی زندگی کا دورانیہ چند ماہ کا ہے جبکہ انسانی زندگی کا دورانیہ عموماً پچاس ‘ ساٹھ ‘ ستر یا اسیّ سال پر مشتمل ہے۔

Maximize your Quran.com experience!
Start your tour now:

0%