You are reading a tafsir for the group of verses 22:11 to 22:13
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

ومن الناس ………العشیر (13)

عقیدہ اور نظریہ ایک مومن کی زندگی کا سرمایہ ہوتا ہے اور اسی پر مومن کی زندگی قائم ہوتی ہے۔ ایک مومن کے ماحول میں زندگی کے سمندر میں اضطرابات اور تلاطم آتے اور جاتے رہتے ہیں اور تیز طوفانی ہوائیں چلتی رہتی ہیں لیکن مومن ہے کہ وہ سمندر کے بیچ میں ایک چٹان کو مضبوطی سے پکڑ کر جم جاتا ہے۔ اس کے ماحول کے اردگرد سے ایک ایک سہارا گرتا جاتا ہے لیکن وہ ہے کہ اس نے ایک مضبوط سہارا پکڑ رکھا ہوتا ہے اور اس کے پائوں کو کوئی تزلزل نہیں ہوتا۔

ایک سچے مومن کی زندگی میں نظریہ کی یہ قدر و قیمت ہوتی ہے لہٰذا اسے اس پر جم جانا چاہئے۔ ضروری ہے کہ وہ اسے مضبوطی سے پکڑ لے۔ اسے اس پر یقین ہونا چاہئے کہ یہ عقیدہ سچا عقیدہ ہے۔ اس کے بارے میں اس کے اندر کوئی تذبذب نہ ہو ، اور اس پر وہ کسی عطا اور جزاء کا طلبگار بھی نہ ہو ، کیونکہ مومن کے لئے اس کا نظریہ اس کا حاصل ہوتا ہے۔ یہ عقیدہ اور نظریہ ہی اس کی پناہ گاہ ہوتا ہے ، یہی اس کا سہارا ہوتا ہے۔ یہ اس کا صلہ ہوتا ہے اس لئے کہ اس کی وجہ سے اس کے دل کو نور ملا ہے اور وہ راہ ہدایت پر آگیا ہے اور یہ اس پر مطمئن ہوگیا ہے۔ ایک مومن جب اسلامی نظریہ حیات کی پناہ گاہ میں ہوتا ہے اور دیکھتا ہے کہ اس کے اردگرد اس کے ماحول میں لوگ مارے مارے پھر رہے ہیں ، درخت کے گرے ہوئے پتوں کی طرح باد خزاں کبھی انہیں ادھر لے جاتی ہے اور کبھی ادھر۔ طوفانی ہوائوں کے بگولے انہیں اڑاتے پھرتے ہیں اور وہ سخت قلق اور بےچینی کا شکار ہیں جبکہ یہ اپنے نظریہ پر قائم و دائم اور مطمئن ہیں۔ وہ ثابت قدم ہیں ، ان کی حرکات میں سکون اور ٹھہرائو ہے اور وہ رضائے الٰہی کے لئے رات اور دن کام کرتے ہیں۔

جن لوگوں کے بارے میں یہاں بات ہو رہی ہے ، وہ ایسے لوگ ہیں جو نظریات کی تجارت کرتے ہیں ، ایمان و ضمیر کو لے کر بازار میں پھرتے ہیں۔

فان اصابہ خیر اطمان بہ (22 : 11) ” اگر فائدہ ہوا تو مطمئن ہوگیا۔ “ اور یہ کہا کہ بس ایمان میں تو خیر ہی خیر ہے۔ اب یہ شخص اس نظریہ سے منافع کماتا ہے۔ تھنوں سے دودھ نکالتا ہے۔ فصل بوتا ہے اور کاٹتا ہے اور اس کی تجارت بازار میں ہوتی ہے اور وہ اس کو جاری رکھتا ہے۔

وان اصابتہ فتنۃ انقلب علی وجھہ خسر الدنیا و الاخرۃ (22 : 11) ” اور اگر کوئی مصیبت آگئی تو الٹا پھر گیا۔ اس کی دنیا بھی گئی اور آخرت بھی۔ “ دنیا تو اس طرح گئی کہ اس پر معمولی مصیبت آئی اور وہ اسے انگیز نہ کرسکا۔ اپنے مقام پر ثابت قدم نہ رہ سکا۔ اس نے برے حالات میں اللہ کی طرف رجوع نہ کیا اور آخرت یوں گئی کہ اس نے پہلے ایمان اور نظریہ کو چھوڑ دیا اور راہ ہدایت کے بجائے راہ ضلالت کو اختیار کرلیا۔

یہاں قرآن مجید ایسے لوگوں کے بارے میں یہ کہتا ہے کہ یہ لوگ اللہ کی بندگی ایک طرف ہو کر کرتے ہیں۔ یہ اسلامی نظریہ حیات کو مضبوطی سے نہیں پکڑتے ، دعوت کے کاموں میں ثابت قدم نہیں ہوتے ، ان کی پوزیشن کو اس طرح بتایا جاتا ہے کہ وہ نظریاتی موقف میں ایسی جگہ کھڑے ہوتے ہیں کہ ایک معمولی سے جھٹکے سے گر جائیں۔ بس ذرا سی مشکلات آئیں اور یہ بھاگ نکلے۔ ان کا کنارہ پر کھڑا ہونا ہی اس مقصد کے لئے تھا کہ بھاگنا آسان ہو۔

واقعہ یہ ہے کہ نفع و نقصان سے چیزوں کا ناپنا تجارتی کاروبار میں ہوا کرتا ہے۔ نظریات میں دنیوی سود و زیاں کا معیار نہیں چلتا۔ نظریات میں تو یہ دیکھنا چاہئے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے۔ حق کا ساتھ دینا چاہئے کہ نظریات میں حق وہ ہے جس پر ایک کارکن اپنی تحریک بصیرت سے مطمئن ہو۔ اس کا نفع یہی ہوتا ہے کہ انسان کو حق مل جائے۔ انسان دل سے اس پر مطمئن ہو اور اس میں اسے قلبی سکون اور راحت مل جائے۔ پس یہی منزل مقصود ہوتی ہے ایک مومن کی۔ اس پر ایک سچا مومن کوئی خارجی جزاء نہیں چاہتا۔

سچا مومن اپنے رب کی عبادت اس لئے کرتا ہے کہ اس نے اسے ہدایت بخشی ہے۔ اس لئے کرتا ہے کہ اس کے لئے ایمان محبوب بنا دیا گیا ہے اور وہ ایمان اور نظریہ کے ساتھ محبت کرتا ہے۔ اگر اس پر کوئی دنیاوی فائدہ بھی مل جائے تو یہ جزاء خیر ہے۔ یہ مومن کے لئے بندگی اور ایمان پر صلہ ہوگا۔

ایک سچا مومن اپنے خدا کو سود و زیاں کے زاویہ سے نہیں آزماتا۔ وہ تو جب اسلام کو قبول کرتا ہے تو اس کے ساتھ ہی ہر آزمائش کو بھی قبول کرتا ہے۔ وہ راضی ہوتا ہے کہ رب اسے جس طرح چاہے آزمائے وہ تیار ہے۔ خواہ اس پر خوشحالی ہو اور رب اسے آزمائے ، چاہے اس پر بدحالی ہو ار رب اسے اس میں آزمائے ، وہ ہر حال میں راضی ہو۔ یہ سودا بازار کے بائع اور مشتری کا سودا نہیں ہوتا کہ اس میں ہر وقت وہ سود زیاں کا حساب کرتا رہے ، بلکہ یہاں تو خالق کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہے۔ اللہ کا اختیار ہے کہ جو چاہے کرے ، کیونکہ اللہ ہی ہے جس نے مومن کو بنایا ہے۔

جو شخص اپنے ایمان اور نظریہ سے دست بردار ہو کر الٹا چلا جاتا ہے وہ ایسے خسارے میں پڑجاتا ہے جس میں کوئی شک نہیں ہے۔

ذلک ھو الخسران المبین (22 : 11) ” اور یہ صریح خسارہ ہے۔ “ اس کی زندگی کا اطمینان جاتا رہا ، اعتماد جاتا رہا ، سکون جاتا رہا اور رضائے الٰہی سے بھی محروم ہوگیا۔ صحت ، مال اور اولاد کے خسارے کے ساتھ ساتھ آخرت کا خسارہ تو بہت بڑا خسارہ ہے۔ دنیا کے اس خسارے کے ساتھ ساتھ اللہ اپنے بندوں کو آزماتا ہے۔ ان کے اعتماد ، ان کے بھروسے سے ، ان کے صبر ، ان کے اخلاص ، اور ان کے اس حوصلے کو آزماتا ہے کہ یہ لوگ اللہ کی تقدیر کے فیصلے ماننے کے لئے تیار ہیں یا نہیں اور آخرت کا خسارہ تو بہت بڑا خسارہ ہے کہ وہ آخرت کی دائمی نعمتوں سے محروم ہوگیا۔ اللہ کی رضا مندی اور اللہ کے قرب سے محروم ہوگیا ہے۔ یہ ہے خسران مبین

لیکن یہ شخص جو اللہ کو ایک طرف ہو کر پوجتا ہے ، یہ جائے گا کہاں ؟ اللہ سے دور ہو کر یہ کہاں جائے گا ؟

یدعوا من دون اللہ مالا یضرہ ومالا ینفعہ (22 : 12) ” پھر وہ اللہ کو چھوڑ کر ان کو پکارتا ہے جو اس کو نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ فائدہ۔ “ یہ بتوں کی پرستش کرے گا ، یا کسی شخصیت کی پرستش کرے گا جیسا کہ جاہلیت اولیٰ میں رواج تھا۔ دور جدید میں یہ کسی پارٹی ایک سی ڈکٹیٹر یا کسی مفاد کے پیچھے دوڑے گا جس طرح جدید جاہلیت کی صورت ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جب بھی لوگوں نے اللہ وحدہ کو پکارنا ترک کیا اور اللہ کی رضا اور اس کے نظام جاہلیت کی صورت ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جب بھی لوگوں نے اللہ وحدہ کو پکارنا ترک کیا اور اللہ کی رضا اور اس کے نظام زندگی پر چلنا ترک کیا۔ تو ان کا انجام کیا ہوتا ہے ؟ ایسے لوگ یکسوئی اور یک جہتی سے محروم ہو کر منتشر ہوجاتے ہیں۔

ذلک ھو الضلل البعید (22 : 13) ” وہ ان کو پکارتا ہے جن کا نقصان ان کے نفع سے قریب تر ہے۔ “ یعنی بت یا شیطان ، یا آستانے۔ ان سب چیزوں کی مضرت زیادہ قریب ہے اور نفع بعید ہے۔ مضرت تو یہ ہے کہ انسانی دل و دماغ میں انتشار پیدا ہوتا ہے۔ وہم ذلت اور پسماندگی اس کے نصیب میں آتی ہے اور آخرت کا نقصان تو بہت ہی عظیم ہے۔

لئس المولی (22 : 13) ” ایسا آقا بہت ہی برا ہوتا ہے۔ “ یعنی ایسا جو نہ نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان۔

ولبئس العشیر (22 : 13) ” بدترین ہے اس کا رفیق۔ “ یعنی یہ ساتھی جس سے یہ نقصان اٹھایا جا رہا ہے اس میں بت بھی شال ہیں اور انسان بھی شامل ہیں۔ کیونکہ بعض لوگ انسانوں کو بھی الہ یا شبہ الہ بناتے رہتے ہیں۔ ہر دور میں ایسے انسان الہ ہوا کرتے ہیں اور مومنین کے لئے جو انعامات ہیں وہ بہت ہی عظیم ہیں ، قیمتی ہیں۔ اگر دنیا میں کوئی مسلمان سب کچھ دائو پر لگا دے تو بھی ان کے لئے جو اجر رکھا گیا ہے وہ پھر بھی زیادہ عظیم اور قیمتی ہے۔

Maximize your Quran.com experience!
Start your tour now:

0%