You are reading a tafsir for the group of verses 22:8 to 22:11
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

ایک شخص وہ ہے جو دین کو کامل صداقت کے طورپر دریافت کرتاہے۔ دین اس کے دل ودماغ پر پوری طرح چھا جاتا ہے۔ وہ کسی تحفظ کے بغیر اپنے آپ کو دین کے حوالے کردیتاہے۔ اس کی نظر میں ہر دوسری چیز ثانوی بن جاتی ہے۔ یہی شخص خدا کی نظر میں سچا مومن ہے۔

دوسرے لوگ وہ ہیں جو بس اوپری جذبہ سے دین کو مانیں۔ ایسے لوگوں کی حقیقی دلچسپیاں اپنے مفادات سے وابستہ ہوتی ہیں۔ البتہ سطحی تأثر کے تحت وہ اپنے آپ کو دین سے بھی وابستہ کرلیتے ہیں۔ ان کی یہ وابستگی صرف اس وقت تک کے ليے ہوتی ہے جب تک دین کو اختیار کرنے سے انھیں کوئی نقصان نہ ہورہا ہو۔ ان کے مفادات پر اس سے کوئی زد نہ پڑتی ہو۔ جیسے ہی انھوں نے دیکھا کہ دین اوران کا مفاد دونوں ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے وہ فوراً ذاتی مفاد کو اختیارکر لیتے ہیں اور دین کوچھوڑ دیتے ہیں۔

یہی دوسري قسم کے لوگ ہیں، جن کو منافق کہاجاتا ہے۔ منافق انسان آخرت کو پانے میں بھی ناکام رہتا ہے اور دنیا کو پانے میں بھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا اور آخرت دونوں معاملہ میں کامیابی کے لیے ایک ہی لازمی شرط ہے، اور وہ یکسوئی ہے، اور یہی وہ قلبی صفت ہے جس سے منافق انسان ہمیشہ محروم ہوتا ہے۔ وہ اپنے دو طرفہ رجحان کی وجہ سے نہ پوری طرح آخرت کی طرف یکسو ہوتااور نہ پوری طرح دنیا کی طرف۔اس طرح وہ دونوں میں سے کسی کی بھی لازمی قیمت نہیں دے پاتا۔ ایسے لوگ دو طرفہ محرومی کی علامت بن کر رہ جاتے ہیں۔

Maximize your Quran.com experience!
Start your tour now:

0%