فان تولو افقل اذئتکم علی سوآء (21 : 109) ” اگر وہ منہ پھیریں تو پھر کہو کہ میں نے علی الاعلان تم کو خبردار کردیا ہے۔ “ یعنی میں نے اپنا مدعا پورا پورا تمہارے سامنے رکھ دیا ہے۔ اب میں اور تم برابر ہیں۔ ” ایذان “ تو دراصل اس اعلان اور الٹی میٹم کو کہتے ہیں جو امن کا زمانہ ختم ہونے کے وقت کیا جاتا ہے اور فریق دوئم سے کہا جاتا ہے کہ اب دونوں فریقوں کے درمیان جنگ ہے۔ یہ سورة مکی ہے ، اس وقت قتال فرض نہ ہوا تھا ، تو یہاں اعلان کا مطلب یہ ہے کہ میں نے جو کچھ کہنا تھا ، کہہ دیا ہے۔ اب تم جانور اور تمہارا انجام۔ یعنی اب یہ آخری اعلان آگیا ہے اور آئندہ تمہارے لئے عذر و معذرت کا کوئی جواز نہ ہوگا۔ اگر وہ جانتے بوجھتے اپنے راستے پر چلتے رہیں تو اس کا وبال بھی ان پر ہوگا کیونکہ ان کو علم ہے۔
و ان ادری اقریب ام بعیدماتوعدون (21 : 109) ” اب میں نہیں جانتا کہ وہ چیز جس کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے قریب ہے یا دور۔ “ میں نے تمہیں اعلانیہ کہہ دیا ہے۔ لیکن میرے علم میں یہ بات نہیں ہے کہ جس عذاب کے تم مستحق ہو وہ کب آئے گا۔ کیونکہ یہ تو اللہ کے مخفی علوم میں سے ایک غیبی علم ہے۔ اس کے بارے میں صرف اللہ جانتا ہے۔ یہ صرف اللہ ہی جانتا ہے کہ وہ تمہیں دنیا میں پکڑتا ہے یا آخرت میں۔ وہ تمہارے راز سے بھی واقف ہے اور کھلی باتوں سے بھی۔ تمہاری کوئی بات اس سے پوشیدہ نہیں ہے۔
0%