آیت 109 فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ اٰذَنْتُکُمْ عَلٰی سَوَآءٍ ط ”میں نے تم سب لوگوں تک برابر اللہ کا پیغام پہنچا دیا ہے۔ میں نے تمہارے سرداروں پر بھی اتمام حجت کردیا ہے اور عوام کے سامنے بھی حق واضح انداز میں پیش کردیا ہے۔ الغرض تمہارے معاشرے کا کوئی چھوٹا ‘ کوئی بڑا ‘ کوئی امیر اور کوئی غریب فرد ایسا نہیں جس تک میری یہ دعوت نہ پہنچی ہو۔ لہٰذا جو کام اللہ نے میرے ذمے لگایا تھا میں نے اپنی طرف سے اس کا حق ادا کردیا ہے۔وَاِنْ اَدْرِیْٓ اَقَرِیْبٌ اَمْ بَعِیْدٌ مَّا تُوْعَدُوْنَ ”تم لوگوں کو جو وعید سنائی جا رہی ہے ‘ جس عذاب یا قیامت کے وقوع پذیر ہونے سے متعلق تم لوگوں کو خبردار کیا جا رہا ہے ‘ اس کے بارے میں کوئی ”ٹائم ٹیبل“ میں تم لوگوں کو نہیں دے سکتا۔ میں نہیں جانتا کہ اللہ کا وہ وعدہ کب پورا ہوگا ‘ البتہ یہ بات طے ہے کہ اپنے کرتوتوں کے نتائج و عواقب بہر حال تم لوگوں کو بھگتنے ہوں گے۔قیامت کے وقوع پذیر ہونے کے بارے میں قطعی علم تو صرف اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے ‘ البتہ قرآن میں جابجا قیامت اور آثار قیامت کے بارے میں اشارے ملتے ہیں۔ احادیث نبویہ ﷺ کی کتاب الملاحم ‘ کتاب اشراط الساعۃ اور کتاب الفتن کے اندر بھی قرب قیامت کے زمانہ کے حالات و واقعات بہت تفصیل سے بیان ہوئے ہیں۔ اس ضمن میں سابقہ الہامی کتب کے اندر بھی بہت سی پیشین گوئیاں موجود ہیں۔ اگرچہ ان کتب میں بڑی حد تک ردّ و بدل کردیا گیا ہے ‘ لیکن ان کی بعض عبارات اپنی اصلی حالت میں آج بھی موجود ہیں۔ ان پیشین گوئیوں کے حوالے سے بائبل کی آخری کتاب Book of Revelation بھی بہت اہم ہے جو حضرت یوحنا John کے مکاشفات پر مشتمل ہے ‘ جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں میں سے تھے اور حضرت یحییٰ علیہ السلام پیغمبر یوحنا : John the Baptist کے ہم نام تھے۔ ماضی قریب کی شخصیات میں Nostradamous ‘ نعمت شاہ ولی ‘ گاندھی جی ان کی ذاتی ڈائری کی دریافت کے بعد یہ پیشین گوئیاں سامنے آئی ہیں اور وائن برگر کی پیشین گوئیاں ملتی ہیں۔ اس سب کچھ کا خلاصہ یہ ہے کہ قیامت سے پہلے اس دنیا پر بہت مشکل حالات آنے والے ہیں۔ آثار وقرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ وقت اب زیادہ دور نہیں ‘ لیکن اس کے وقوع کے بارے میں قطعی علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔
0%