آیت 107 وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ ”یعنی آپ ﷺ کی بعثت صرف جزیرہ نمائے عرب تک محدود نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو جزیرۂ نمائے عرب میں اسلام کے عملی طور پر غلبے کے بعد آپ ﷺ کی بعثت کا مقصد پورا ہوچکا ہوتا ‘ مگر آپ ﷺ تو تمام اہل عالم کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ چناچہ آپ ﷺ کی بعثت کا مقصد قرآن میں تین مقامات التوبہ : 33 ‘ الفتح : 28 اور الصف : 9 پر ان الفاظ میں بیان فرمایا گیا ہے : ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ ”وہی ذات ہے جس نے اپنے رسول ﷺ کو بھیجا الہدیٰ اور دین حق کے ساتھ تاکہ اسے غالب کر دے تمام ادیان پر“۔ گویا آپ ﷺ کی بعثت کا مقصد تب پورا ہوگا جب دین اسلامُ کل روئے زمین پر غالب ہوجائے گا۔ اسی مضمون کو اقبالؔ نے یوں بیان کیا ہے : وقت فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے نور توحید کا اتمام ابھی باقی ہے !نور توحید کا اتمام یعنی اسلام کا بطور دین کلی غلبہ جزیرہ نمائے عرب کی حد تک تو حضور ﷺ کی حیات مبارکہ میں ہی ہوگیا تھا۔ اس کے بعد خلافت راشدہ کے دور میں دین اسلام کے اس اقتدار کو مزید وسعت دینے کا سلسلہ بڑی شد و مد سے شروع ہوا مگر دور عثمانی میں ایک یہودی عبداللہ بن سبا نے سازش کے ذریعے عالم اسلام میں ”الفتنۃ الکبرٰی“ کھڑا کردیا۔ اس کے نتیجے میں حضرت عثمان رض شہید کردیے گئے اور پھر مسلمانوں کی باہمی خانہ جنگی کے نتیجے میں ایک لاکھ کے قریب مسلمان ایک دوسرے کی تلواروں سے ہلاک ہوگئے۔ اس فتنہ کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ نہ صرف غلبہ اسلام کی مزید تصدیر و توسیع کا عمل رک گیا ‘ بلکہ بعض علاقوں سے مسلمانوں کو پسپائی بھی اختیار کرنا پڑی۔ حضور ﷺ کی بعثت چونکہ تا قیام قیامتُ کل روئے زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کے لیے ہے اور آپ ﷺ کی بعثت کا مقصد ”اِظہار دین 1 لحق“ دین حق کا غلبہ ہے ‘ اس لیے یہ دنیا اس وقت تک ختم نہیں ہوسکتی جب تک آپ ﷺ کی بعثت کا یہ مقصد بہ تمام و کمال پورا نہ ہو اور دین اسلامُ کل عالم انسانی پر غالب نہ ہوجائے۔ اس کا صغریٰ و کبریٰ قرآن سے ثابت ہے اور اس کی تفصیلات کتب احادیث میں موجود ہیں۔
0%