قال فما خطبك يا سامري ٩٥ قال بصرت بما لم يبصروا به فقبضت قبضة من اثر الرسول فنبذتها وكذالك سولت لي نفسي ٩٦ قال فاذهب فان لك في الحياة ان تقول لا مساس وان لك موعدا لن تخلفه وانظر الى الاهك الذي ظلت عليه عاكفا لنحرقنه ثم لننسفنه في اليم نسفا ٩٧ انما الاهكم الله الذي لا الاه الا هو وسع كل شيء علما ٩٨
قَالَ فَمَا خَطْبُكَ يَـٰسَـٰمِرِىُّ ٩٥ قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوا۟ بِهِۦ فَقَبَضْتُ قَبْضَةًۭ مِّنْ أَثَرِ ٱلرَّسُولِ فَنَبَذْتُهَا وَكَذَٰلِكَ سَوَّلَتْ لِى نَفْسِى ٩٦ قَالَ فَٱذْهَبْ فَإِنَّ لَكَ فِى ٱلْحَيَوٰةِ أَن تَقُولَ لَا مِسَاسَ ۖ وَإِنَّ لَكَ مَوْعِدًۭا لَّن تُخْلَفَهُۥ ۖ وَٱنظُرْ إِلَىٰٓ إِلَـٰهِكَ ٱلَّذِى ظَلْتَ عَلَيْهِ عَاكِفًۭا ۖ لَّنُحَرِّقَنَّهُۥ ثُمَّ لَنَنسِفَنَّهُۥ فِى ٱلْيَمِّ نَسْفًا ٩٧ إِنَّمَآ إِلَـٰهُكُمُ ٱللَّهُ ٱلَّذِى لَآ إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ وَسِعَ كُلَّ شَىْءٍ عِلْمًۭا ٩٨
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
حضرت موسیٰ کو جب معلوم ہوا کہ اس فعل کا اصل لیڈر سامری ہے تو آپ نے اس سے پوچھ گچھ کی۔ سامری نے دوبارہ ہوشیاری کا طریقہ اختیار کیا اور بات بناتے ہوئے کہا میں نے جو کچھ کیا ایک کشف کے زیر اثر کیا۔ اور خودرسول کے نقش قدم کی مٹی بھی اس میں برکت کے لیے شامل کردی۔
پیغمبر کو فریب دینے کی کوشش کی بنا پر سامری کا جرم اور زیادہ شدید ہوگیا۔ بائبل کے بیان کے مطابق اس کو خدا نے کوڑھ کا مریض بنادیا۔ اس کا جسم ایسا مکروہ ہوگیا کہ لوگ اس کو دیکھ کر دور ہی سے اس سے کترانے لگے۔ سامری نے جھوٹ کی بنیاد پر قوم کا محبوب بننے کی کوشش کی۔ اس کی اسے یہ سزا ملی کہ اس کو قوم کا سب سے زیادہ مبغوض شخص بنا دیا گیا۔ اور آخرت کی سزا اس کے علاوہ ہے۔
بنی اسرائیل کے ذہن میں مشرکانہ مظاہر کی جو عظمت تھی اسی کو ختم کرنے کے لیے حضرت موسیٰ نے یہ کیا کہ لوگوں کے سامنے بچھڑے کو جلا ڈالا اور پھر اس کی خاک کو سمندر کی موجوں میں بہادیا۔