سامری کے اس جواب کی تفسیر میں کئی اقوال و روایات وارد ہیں۔ اس نے کیا چیز دیکھ لی جو اوروں نے نہ دیکھی ؟ وہ رسول کون تھے جس کے نقش قدم سے انہوں نے مٹھی لی اور پھینک دی ؟ پھر اس فعل کا بچھڑا سازی سے کیا تعلق ہے ؟ بچھڑے میں اس مٹی نے کیا اثرات کیے ؟
ان روایات میں سے بیشتر میں یہ بات ہے کہ سامری نے جبرئیل (علیہ السلام) کو اس شکل میں دیکھا جس میں وہ زمین پر اترتے ہیں ان کے قدموں کے نیچے سے اس نے خاک اٹھا لی۔ یا اس کے گھوڑے کے قدموں کے نیچے سے خاک اٹھا لی اور اسے سونے سے بنائے ہوئے بچھڑے پر ڈالا اور اس سے آواز آنے لگی۔ یا اس مٹی نے سونے کے ڈھیر سے بچھڑا بنا دیا۔
قرآن کریم نے یہاں اس حقیقت واقعہ کی وضاحت نہیں کی۔ قرآن کریم نے صرف سامری کا قول نقل کیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں یہ سامری کی طرف سے عذر لنگ تھا ، اس نے یہ عذر گھڑا تاکہ اپنی اس حرکت کے نتائج سے بچ جائے۔ بچھڑا تو اس سونے سے بنایا تھا جو بنی اسرائیل مصر سے ساتھ لے آئے تھے اور پھر پھینک دیا تھا ۔ سامری نے اس انداز سے بتایا کہ ہوا اس سے ایسی آواز نکالتی تھی جیسا کہ ایک بچھڑے کی آواز آتی ہے۔ اس کے بعد اس نے رسول کے آثار کی مٹی کا ذکر کیا ۔ اس لئے کہ اپنی اس حرکت کو تقدس کا رنگ دے اور اس معاملے کا جوڑ رسول کے نقش قدم سے لگا دے۔
بہرحال حقیقت جو بھی ہو ، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اسے جماعت بنی اسرائیل سے نکال دیا۔ پوری عمر کے لئے اسے ملک بدر کردیا اور آخرت میں اس کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اس مصنوعی الہ کے معاملے میں سامری کے ساتھ سخت برتائو کیا اور الہ کے بارے میں بھی ایسا رویہ اختیار کیا تاکہ لوگ دیکھیں کہ اس الہ نے اپنے بنانے والے کو بھی کوئی مدد نہ پہنچائی۔