حضرت موسیٰ نے اپنے بھائی کا سختی کے ساتھ محاسبہ کیا۔ حضرت ہارون نے جواب دیا کہ ایسا نہیں ہے کہ میںنے اصلاح کی کوشش نہیں کی اور جاہلوں کے ساتھ مصالحت کرلی۔ بلکہ میں نے پوری قوت کے ساتھ ان کو اس مشرکانہ فعل سے روکنے کی کوشش کی۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ قوم کی اکثریت سامری کے فریب میں آکر اس کی ساتھی بن گئی۔ میں نے اصرار کیا تو وہ لوگ جنگ وقتل پر آمادہ ہوگئے۔مجھے اندیشہ ہوا کہ اگر میں اصرار جاری رکھتاہوں تو قوم کے اندر باہمی خون ریزی شروع ہوجائے گی۔
معاملہ اس نوبت تک پہنچنے کے بعد اب مجھے دو میں سے ایک چیز کا انتخاب کرنا تھا۔ یا تو باہمی جنگ، یا آپ کی آمد تک اس معاملہ کو ملتوی رکھنا۔ میں نے دوسری صورت کو اَہون (آسان تر)سمجھ کراس کو اختیار کرلیا— بہت سے مواقع پر دین کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ باہمی لڑائی سے بچنے کے لیے خاموشی کا طریقہ اختیار کرلیا جائے، حتی کہ شرک جیسے معاملہ میں بھی۔